الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ چار سنت قبل العشاء غیر مؤکدہ ہیں اس لیے ان کو مستحب کہا جائے گا(۱) مظاہر حق میں ہے، آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی شخص عشاء سے پہلے چار رکعت پڑھے گا گویا اس نے اس رات میں تہجد کی نماز پڑھی۔ اور جو کوئی عشاء کے بعد چار رکعت پڑھے گا گویا اس نے چار رکعت شب قدر میں پڑھی۔(۲)
(۱)إن التی قبل العشاء مندوبۃ فلا مانع من قضائہا بعد التي تلي العشاء۔ الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، باب إدراک الفریضۃ، مطلب ھل الإسائۃ الخ، ج ۲، ص: ۵۱۴)
(۲) رجح في الفتح تقدیم الرکعتین۔ قال في الإمداد: وفي فتاویٰ العتابي أنہ المختار۔ وفي مبسوط شیخ الإسلام أنہ الأصح، لحدیث عائشۃ: أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان إذا فاتتہ الأربع قبل الظہر یصلیہن بعد الرکعتین وہو قول أبي حنیفۃ، وکذا في جامع قاضي خان قال الترمذي: حسن غریب، فتح (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، باب إدراک الفریضۃ، مطلب ھل الإسائۃ دون الکراھۃ الخ، ج ۲، ص: ۵۱۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص362