Ref. No. 1521/43-1016
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لفظ صریح سےطلاق بلانیت واقع ہوتی ہے اور لفظ کنائی سے نیت کے ساتھ واقع ہوتی ہے۔ لفظ صریح وہ ہے جو طلاق کے لئے ہی بولا جاتاہو اور اس لفظ کے بولنے سے وہی معنی طلاق متعارف ہوں۔ اور لفظ کنائی وہ ہے طلاق کے لئے اصلا وضع نہ کیا گیا ہو البتہ اس کو طلاق کے لئے بھی استعمال کیا جاتاہو اور غیر طلاق کے لئے بھی۔ لفظ کنائی میں اگر طلاق کی نیت کرے گا تو طلاق واقع ہوگی۔ اور اگر نیت نہیں کرے گا تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اب لفظ کنائی میں اس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس لفظ سے وہی معنی مردا لئے جاسکتے ہیں جن کا اس لفظ میں احتما ل ہو۔ پس کسی لفظ کنائی سے وہ معنی ہرگز نہیں مراد لئے جاسکتے جن کا اس لفظ سے کوئی تعلق نہ ہو اور وہ لفظ اس معنی میں کسی طرح مستعمل نہ ہو اور اس سے کبھی بھی وہ معنی مراد نہ لئے جاتے ہوں۔ لفظ تبت طلاق اور غیرطلاق کا احتمال نہیں رکھتا، اس لئے صورت بالا میں لفظ تبت بول کر طلاق مراد لینا درست نہیں اور اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية الی قولہ - - - أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت - - - (قوله ولو بالفارسية) فما لا يستعمل فيها إلا في الطلاق فهو صريح يقع بلا نية، وما استعمل فيها استعمال الطلاق وغيره فحكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام بحر (شامی، باب صریح الطلاق 3/247-252)
ولو قال صفحت عن طلاقك ونوى الطلاق لم تطلق وكذا كل لفظ لا يحتمل الطلاق لا يقع به الطلاق وإن نوى مثل قوله بارك الله عليك أو قال لها أطعميني أو اسقيني ونحو ذلك ولو جمع بين ما يصلح للطلاق وبين ما لا يصلح له بأن قال اذهبي وكلي أو قال اذهبي وبيعي الثوب ونوى الطلاق بقوله اذهبي ذكر في اختلاف زفر ويعقوب أن في قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - لا يكون طلاقا وفي قول زفر يكون طلاقا كذا في البدائع. (الھندیۃ، الفصل الخامس فی الکنایات فی الطلاق 1/376) (وأما الضرب الثاني وهو الكنايات لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة الحال) لأنها غير موضوعة للطلاق بل تحتمله وغيره فلا بد من التعيين أو دلالته. (فتح القدیر، فصل فی الطلاق قبل الدخول 4/61)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند