الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں علم نہ ہونے کی وجہ سے حرام کو حلال یا حلال کو حرام سمجھ لیا، تو اس کا ایمان و نکاح باقی ہے، آئندہ کوئی رائے قائم نہ کریں۔(۱)
(۱) إذا اعتقد الحرام حلالاً فإن حرمتہ لعینہ، وقد ثبت بدلیل قطعي یکفر، وإلا فلا … أما لو قال لحرام: ہذا حلال لترویج السلعۃ، أو بحکم الجہل لا یکفر۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’مسألۃ استحلال المعصیۃ ولو صغیرۃ کفر‘‘: ص: ۲۵۴)
أن من استحل ما حرمہ اللّٰہ تعالیٰ علی وجہ الظن لایکفر، وإنما یکفر إذا اعتقد الحرام حلالاً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوطئ الذي یوجب الحد والذي لا یوجبہ‘‘: ج ۴، ص: ۲۴)
{ٰٓیأَیُّھَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکَج تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ أَزْوَاجِکَ ط وَاللّٰہُ غَفُوْر’‘ رَّحِیْمٌہ۱ } (سورۃ التحریم:۱)
{ٰٓیأَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْاط إِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ہ۸۷} (سورۃ المائدہ: ۸۷)