Ref. No. 1639/43-1213
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہروہ گھر جو ماموں کا رہائشی ہے چاہے ملکیت کا ہو یا کرایہ کا ہو، اور ماموں کی طرف منسوب ہو اس گھرمیں عورت کا داخل ہونا ممنوع ہے۔ اس لئے اگر ماموں کے نئے مکان میں جائے گی تو حسب شرط شرعا طلاق واقع ہوجائے گی۔ البتہ اگر جانا ضروری ہے، اور تین طلاق کو دخولِ دار پر معلق کیا ہو تو ایک حیلہ اختیار کرسکتے ہیں کہ عورت کو ایک طلاق رجعی دیدی جائے، اورعدت گزرجانے کے بعد عورت اپنے ماموں کے گھر چلی جائے۔تو اس طرح قسم بھی پوری ہوجائے گی اور طلاق کا محل نہ ہونے کی وجہ سے کوئی طلاق بھی واقع نہیں ہوگی، اب شوہر دوبارہ اس سے نکاح کرلے، تو اس کے بعد عورت کے لئے ماموں کے گھر جانے کا سلسلہ بھی شروع ہوجائے گا۔ خیال رہے کہ اب شوہر شرعا صرف دو طلاق کا مالک ہوگا۔ کیونکہ وہ ایک طلاق دے چکاہے۔
حلف لا یدخل دار فلان یراد بہ نسبة السکنی إلیہ عرفاً ولو تبعاً أو بإعارة باعتبار عموم المجاز، ومعناہ کون محل الحقیقة فرداً من أفراد المجاز (شامی، کتاب الأیمان، ۵: ۵۵۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔ وتنحل الیمین بعد وجود الشرط مطلقاً لکن إن وجد فی الملک طلقت وعتق وإلا لا،فحیلة من علق الثلاث بدخول الدار أن یطلقھا واحدة ثم بعد العدة تدخلھا فتنحل الیمین فینکحھا (شامی، کتاب الطلاق، باب التعلیق، ۵: ۵۵۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند