Ref. No. 1680/43-1298
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔آپ کے سابق استفتاء کے جواب میں یہ تحریر کیا گیاتھا کہ جب تک حرمت کی کوئی دلیل نہیں مل جاتی اس وقت تک ہر چیز پاک شمار ہوگی۔ اور اس کا استعمال بھی جائز ہوگا، کیونکہ حلت کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ حرمت کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو چیز حرام ہوگی اس کی دلیل اور وجہ حرمت کا پایا جانا ضروری ہے۔ البتہ اگر کسی چیز کے سلسلہ میں حلال و حرام کا شبہہ ہو تواس سے احتراز کرنا بہتر ہے اور احوط ہے۔ آج کے دور میں ہر سامان کے اجزائے ترکیبی کوڈ کے ساتھ لکھے ہوتے ہیں ان کو آن لائن چیک کیاجاسکتاہے۔ اگر ان میں کوئی غیرشرعی اجزاء نہ ہوں تو اس کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
[قاعدة الأصل في الأشياء الإباحة] (91) قوله: الأصل في الأشياء الإباحة إلخ ذكر العلامة قاسم بن قطلوبغا في بعض تعاليقه أن المختار أن الأصل الإباحة عند جمهور أصحابنا، وقيده فخر الإسلام بزمن الفترة فقال: إن الناس لن يتركوا سدى في شيء من الأزمان، وإنما هذا بناء على زمن الفترة لاختلاف الشرائع ووقوع التحريفات، فلم يبق الاعتقاد، والوثوق على شيء من الشرائع فظهرت الإباحة بمعنى عدم العقاب، بما لم يوجد له محرم ولا مبيح انتهى. (غمز عیون البصائرفی شرح الاشباہ والنظائر 1/223)
ترجيحُ ما يقتضي الحظر على ما يقتضي الإباحة: لأنه أحوطُ، ولقوله صلى الله عليه وسلم: «دعْ ما يَرِيبُك إلى ما لا يَريبُك» (أحمد والترمذي والنسائي وابن حبان عن الحسن بن علي رضي الله عنهما).ـ (اصول الفقہ الذی لایسع الفقیہ جھلہ، ترجیح المثبت علی النافی 1/437)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند