654 views
السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قرآن خوانی کا مروجہ طریقہ یعنی طلبہ کا کسی گھر، دکان میں جاکر اجتماعی طور پر قرآن پڑھنا اور دعا کرنا بعدہ ناشتہ وغیرہ کا نظم، یہ شریعت کی نگاہ میں کیسا ہے ؟
قرآن خوانی کے بعدشرطیہ طور پر یا بغیر شرط کے بچوں کے لیے کچھ پیسے لینا
یا مدرسے کے لیے رسید کٹانے کو کہنا از روئے شرع کیسا ہے ؟
اور اگر  قرآن خوانی کے لیے طلبہ کا استعمال تعلیمی اوقات میں ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
‌نیز وہ علاقے جہاں ارباب مدارس سے لوگ قرآن خوانی کا آئے دن مطالبہ کرتے ہیں تو ارباب مدارس کا کیارد عمل ہونا چاہئے براہ کرم بیان فرمائیں اور عند اللہ ماجور ہوں ۔
‌المستفتی محمد احسان     بسرا  راورکیلا   اڈیشہ
موبائل :7008684394
asked Jan 31, 2022 in بدعات و منکرات by Md Ahsaan
reshown Jun 12, 2022 by Darul Ifta

1 Answer

Ref. No. 1816/43-0000

الجواب

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

میت کے لیے ایصال ثواب کا ثبوت احادیث اور سلف کے تعامل سے ثابت ہے اور جس طرح مالی عبادت کا ثواب میت کو پہنچتاہے اسی طرح بدنی عبادت کا ثواب بھی میت کو پہنچتاہے ۔علامہ شامی نے اسے اہل السنت والجماعت کا مسلک قرار دیا ہے ۔

من دخل المقابر فقرأ سورة يس خفف الله عنهم يومئذ، وكان له بعدد من فيها حسنات  بحر. وفي شرح اللباب ويقرأ من القرآن ما تيسر له من الفاتحة وأول البقرة إلى المفلحون وآية الكرسي - وآمن الرسول - وسورة يس وتبارك الملك وسورة التكاثر والإخلاص اثني عشر مرة أو إحدى عشر أو سبعا أو ثلاثا، ثم يقول: اللهم أوصل ثواب ما قرأناه إلى فلان أو إليهم. اهـ. مطلب في القراءة للميت وإهداء ثوابها له [تنبيه]صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شي(رد المحتار،مطلب فی زیارۃ القبور ،2/243)۔

قرآن کریم کے ذریعہ میت کو ثواب پہنچانا بھی درست ہے او راس سے میت کو فائدہ پہنچتاہے اور یہ عمل بھی حدیث اور سلف کے تعا مل سے ثابت ہے۔

 أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ويس قلب القرآن لا يقرؤها رجل يريد الله والدار الآخرة إلا غفر له، اقرءوها على موتاكم(السنن الکبری للنسائی،حدیث نمبر:10847) وعن مجالد، عن الشعبي " كانت الأنصار إذا حضروا قرؤوا عند الميت البقرة ". مجالد ضعيف.(خلاصۃ الاحکام،باب مایقولہ من مات لہ میت ،حدیث نمبر:3279 )ملا علی قاری مرقات میں لکھتے ہیں : وأن المسلمين ما زالوا في كل مصر وعصر يجتمعون ويقرءون لموتاهم من غير نكير، فكان ذلك إجماعا، ذكر ذلك كله الحافظ شمس الدين بن عبد الواحد المقدسي الحنبلي في جزء ألفه في المسألة، ثم قال السيوطي: وأما القراءة على القبر فجاز بمشروعيتها أصحابنا وغيرهم.(مرقات المفاتیح،باب دفن المیت ، 3/1229)۔

تاہم یہاں چند باتیں پیش نظر رکھنی ضروری ہے ، اُسی عمل کا ثواب میت کو پہنچتاہے جو عمل انسان خالص اللہ کی رضا کے لیے کرے اوراس کا ثواب میت کو بخش دے ، جو عمل خالص رضائے ا لہی کے لیے نہ ہو اس کاثواب خود کرنے والے کونہیں ملتا تو دوسروں کو اس کا کیا فائدہ ملے گااسی وجہ سے حضرات علماء نے مروجہ قرآن خوانی پر سخت نکیر کی ہے اس لیے کہ اس میں بہت سے مفاسد جمع ہوجاتے ہیں ۔پڑھنےوالا اس نیت سے پڑھتاہے کہ اس پر کچھ ملے گا اور پڑھانے والوں کے بھی ذہن میں رہتا ہے کہ مدارس کے طلبہ کو بلایا تو اس کو کچھ ہدیہ کے نام پہ دینا ہوگا یا کھانا کھلانا ہوگا ظاہر ہے کہ اس عمل میں جانین سے اخلاص کا تحقق نہیں ہوتا۔اس لیے قرآن خوانی کی مروجہ صورت جس میں جس میں پڑھنے والوں کے لیے کھانے پینے کا نظم ہو یا شرطیہ یا بلاشرط کے بچوں کو کچھ دینے کا رواج ہو یا مدرسہ کے لیے رسید کٹانے کو ضروری قرار دیا جائے یہ سب ناجائز ہے ۔

قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ.(شامی ، مطلب فی الاستئجار علی المعاصی٦/٥٦)۔

مدرسہ کے بچوں کو جمع کرنے اور گھر بلانے میں تو اور بھی مفاسد ہیں بسااوقات ان کی تعلیم و تربیت کا نقصان ہوتا ہے بچوں کے ماں باپ اعزہ کی تکلیف کا موجب ہے بہت سے لوگ بھی بچوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے بعض لوگ حقارت کی بھی نظروں سے دیکھتے ہیں اس لئے مدرسہ کے ذمہ داران کو بچوں کے بھیجنے سے صاف معذرت کردینا چاہئے۔

اگر لوگ مدارس سے قرآن خوانی کے لیے رابطہ کریں تو اس کی منا سب صورت یہ ہےکہ ان کو بچوں کی تعلیم کو تربیت کا حوالہ دے کر منع کردیا جائے اور یہ کہا جائے کہ مدرسہ میں بچے ہر وقت قرآن پڑھتے ہیں آپ کسی وقت تشریف لے آئیں بچوں نے جو قرآن پڑھا ہے اس میں ایصال ثواب کی نیت کرکے مرحوم کےلیے دعا کردی جائے گی یا مرحوم کا نام لے لیا جائے اور حفظ کی  درسگاہ میں سبق کے اختتام کے وقت مرحوم کے لیے دعا کرادیا جائے تو یہ بہتر متبادل ہوسکتاہے ا س کے علاوہ ان کو انفرادی طورپر قرآن پڑھنے اور میت کو اس کا ثواب پہنچانے کی ترغیب کی جائے ۔

واللہ اعلم بالصواب

 دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Jun 12, 2022 by Darul Ifta
...