98 views
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میرے دوست امتیاز بھائی نے مجھ کو سات ہزار روپئے بطور امانت دئے تھے، وہ کینسر کے مریض تھے، اور مجھے وصیت کی تھی کہ میرے مرنے کے بعد یہ پیسے میرے والد کو دیدینا ۔ کل ان کا انتقال ہوگیا تو میں اس سلسلہ میں کیا کروں  جبکہ ان کی بیوی بھی ہے، ان کی مدد کے لئے لوگوں نے تقریبا پانچ لاکھ روپئے دئے تھے، اس کا کیا حکم ہے؟ مدرسہ میں پیسے دینے کے لئے بھی وصیت کی تھی اس کا کیا حکم ہے۔ نیز یہ بتائیں کہ ان کی  وراثت کیسے تقسیم ہوگی،ایک بیوی ہے، والد ہیں، ایک بھائی اور ایک بہن ہیں۔ والدہ کا پہلے ہی انتقال ہوچکا ہے۔ جزاک اللہ۔   سراج گیراج والے، ممبئی 30 جنوری 2022
asked Feb 6, 2022 in احکام میت / وراثت و وصیت by Rahimuddin

1 Answer

Ref. No. 1815/43-1575

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ اسلامی کی رو سے، مرحوم کا کل ترکہ اور جوامانت آپ کے پاس، ان کے  والد صاحب کے لئے بطورامانت  موجود ہے ، سب میں وراثت جاری ہوگی۔   جن لوگوں کو وراثت میں حصہ ملتاہے ان کے لئے وصیت باطل ہے، البتہ مسجد ومدرسہ کے لئے وصیت  ایک تہائی مال میں نافذ ہوگی۔اس لئے اب  مرحوم کے کل ترکہ کے ایک تہائی  سے مسجد یا مدرسہ کے لئے  وصیت کے بقدر مال  نکال لیا جائے اور باقی مال صرف بیوی اور والد کے درمیان  اس طرح تقسیم ہوگا کہ مرحوم کی بیوی کو اس کا  چوتھائی  اور باقی سارا  مال مرحوم کے والد کو  بطور عصبہ  دیدیاجائےگا۔ مرحوم کے بھائی بہنوں کو وراثت میں حصہ نہیں ملے گا۔

مدرسہ میں دینے کی کیا وصیت کی تھی اور کس قدر کی وصیت کی تھی اس کی وضاحت سوال میں نہیں ہے۔

"أن الوصية للوارث لاتجوز بدون إجازة الورثة؛ لقوله عليه السلام: «لا وصية لوارث إلى أن يجيزه الورثة (المبسوط للسرخسي (27 / 175)

(قوله ولا وصية وميراث) فمن يستحق الوصية لا يستحق الميراث وكذا بالعكس (شامی 1/259، فروع صلی المحبوس بالتیمم)

"ثم تصح الوصية للأجنبي بالثلث من غير إجازة الوارث، و لاتجوز بما زاد على الثلث". (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 182)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Feb 6, 2022 by Darul Ifta
...