91 views
سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے سلسلے میں ۔میرے والد صاحب گورنمنٹ کنٹریکٹر تھے۔اس وقت میرے تایا نے ان کے نام پر کام کیے تھے ۔جس کو تقریبا پچیس سال ہو چکے ہیں ۔اس کام میں سے 80 لاکھ گورنمنٹ کے پاس باقی ہے ۔میرے تایا ان پر یعنی گورنمنٹ پر معاوضہ کورٹ سے مانگ رہے ہیں ۔جس کی رقم ساڑھے پانچ کروڑ ہو رہی ہے ۔ کیا یہ رقم سود ہے ؟ اور میرے والد بھی اس گناہ میں شریک ہے ؟ فقط والسلام
asked Aug 24, 2022 in ربوٰ وسود/انشورنس by Firoz Aliahmed

1 Answer

Ref. No. 1998/44-1955

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

الجواب وباللہ التوفیق: بشرط صحت سوال کسی بھی صورت میں اپنے حق سے زیادہ کا دعویٰ کرنا اور اس دعویٰ کے نتیجہ میں زائد مال حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے چاہے مقروض کے ٹال مٹول کی وجہ سے نقصان ہی ہو رہا ہو، لہٰذا مذکورہ مسئلے میں زائد رقم سود شمار ہوگی اگر آپ کے والد بھی اس کام میں شریک ہیں تو وہ بھی گنہگار ہوں گے اور اگر وہ اس سے لا تعلق ہیں یا رہے ہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

’’وفیہا وفي الأشباہ: لا یجوز الاعتیاض عن الحقوق المجردۃ کحق الشفعۃ وعلی ہذا لا یجوز الاعتیاض عن الوظائف بالأوقاف‘‘ (رد المحتار: ج ۴، ص: ۵۱۸)

’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لصاحب الحق فذ حقک في عفاف واف أو غیر واف‘‘ (أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Sep 7, 2022 by Darul Ifta
...