104 views
(۹۳)سوال: غیر مسلموں کے یہاں عام طور پر اور تہوار کے موقعہ پر خاص طور پر ماتھے پر قشقہ لگانے کا رواج ہے، بعض مرتبہ مسلم لیڈران غیر مسلموں کے مذہبی میلوں اور جلوسوں میں سیاسی مصلحت کے پیش نظر اپنے ماتھے پر قشقہ لگاتے ہیں، یہ درست ہے یا نہیں ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: عبد اللہ راشد، ہردوئی
asked Dec 11, 2022 in اسلامی عقائد by Rahimuddin

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس سلسلے میں مفتی کفایت اللہ صاحب کی تحریر بہت کافی وشافی ہے، وہ لکھتے ہیں:

چندن کا قشقہ لگانا اگر چہ ہندؤں کا قومی اور مذہبی شعار ہے لیکن اس میں شبہ ضرور ہے کہ آیا یہ فعل ان کا ایسا مذہبی شعار ہے جو مستلزم کفر ہو یا نہیں جولوگ اسے شعار کفر قرار دیں وہ ان لوگوں کی تکفیر کریں گے، لیکن مجھے تامل ہے میرے خیال میں یہ شعار کفر نہیں اگر چہ کافروں کا شعار ہے، اس کی مثال ڈاڑھی منڈانا،الٹی طرف گریبان بنانا ہے یاانگریزی ٹوپی پہن لیناہے کہ یہ قوم کفار کے قومی شعار ہیں، لیکن شعار کفر نہیں ہے، اسی طرح چندن کو بھی خیال کرتا ہوں ورنہ کم از کم اس میں شبہ ضرور ہے اور شبہ کی حالت میں تکفیر کی جرأت نہیں کرسکتا۔ (۱)

ماتھے پر چندن کا قشقہ لگانا غیر مسلموں کی تہذیب ہے اور یہ ان کا قومی شعار ہے، اس لئے مسلمانوں کے لئے چندن کا قشقہ لگانا درست نہیں ہے، حدیث میں غیر کی مشابہت اختیار کرنے اور غیرکی جماعت کو بڑھانے سے منع کیا گیا ہے ’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘(۲) اس لئے اس عمل کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے، مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ اتحاد ویگانکت پیدا کرنے کی اجازت ہے، لیکن ایسا اتحاد کہ اسلام مغلوب ومظلوم ہوجائے اور اسلامی تہذیب کی خلاف ورزی کرکے غیروں کے قومی شعار کو اپنایا جائے درست نہیں ہے۔

البتہ اگر کوئی شخص ماتھے پر چندن کا قشقہ لگائے تو اس کی تکفیر کی جائے گی یا نہیں؟ اس سلسلے میں مفتی صاحب کا بیان بہت واضح ہے، میرے خیال سے اگر وہ بغیر دباؤ کے لگانے کو غلط سمجھے، لیکن اپنی سیاسی مجبوری سمجھ کر لگالے تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی، لیکن اگر اسے اپنی رضا اور خوشی سے لگائے اور بجائے اپنے عمل پر نادم ہونے کے اس پر خوش ہو اور اس کے جواز کے حیلے بیان کررہا ہو تو ایسے شخص کو اپنے ایمان کی خیر منانی ہوگی، اس لئے کہ رضا بالکفر بھی کفر ہے اورمعصیت کو حلال سمجھنا بھی کفر ہے۔(۱)

 

(۱) مفتی کفایت اللّٰہ، کفایت المفتي: ج ۱۳، ص: ۱۸۰)

(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشھرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱۔

(۱) من اعتقد الحرام حلالاً أو علی القلب یکفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالحلال والحرام‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۴)

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 173)

 

 

 

answered Dec 11, 2022 by Darul Ifta
...