الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں ایسے شخص کو گمراہ قرار دیا جائے گا؛ لیکن اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی تا وقتیکہ صد فی صد اس کی کفریہ باتیں سامنے نہ آجائیں، البتہ کفر تک پہونچنے کا اندیشہ ضرور لاحق ہوسکتا ہے۔(۱)
(۱) {وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَ یَعْلَمُھَآ إِلَّا ھُوَ ط} (سورۃ الالانعام: ۵۹)
{قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰہُ ط} ( سورۃ النمل: ۶۵)
{عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلاَ یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ أَحَدًا ہلا ۲۶ إِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ} (سورۃ الجن: ۲۶)
ولعل الحق أن یقال: إن عٰلم الغیب المنفي عن غیرہ جل وعلا ہو ما کان لشخص لذاتہ أي بلا واسطۃ في ثبوتہ لہ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، (تابع) ’’سورۃ النمل‘‘: ج ۱۰، ص: ۱۸)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: (من حدثک أن محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأي ربہ، فقد کذب، وہو یقول): {لاَ تُدْرِکُہُ الْأَبْصَارَ} ]سورۃ الإنعام: ۱۰۳[ (ومن حدثک أنہ یعلم الغیب، فقد کذب، وہو یقول: لا یعلم الغیب إلا اللّٰہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التوحید، باب قول اللّٰہ تعالیٰ: عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ أحداً‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۹۸، رقم: ۷۳۸۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 199