الجواب وباللّٰہ التوفیق:عورتوں کے قبرستان میں جانے کی ابتداًء ممانعت کی گئی تھی بعد میں اجازت دیدی گئی جس کی تصریح حدیث بخاری شریف میں موجود ہے؛ اس لئے عورتوں کا قبرستان میں جانا تو جائز ہے،(۱) لیکن وہاں جاکر نوحہ و گریہ وزاری بالکل منع اور ناجائز ہے، قبرستان میں جانے کی اجازت بھی اس صورت میں ہے کہ کوئی خطرہ نہ ہو اور محرم ساتھ ہو۔ اور غلاف یا چادر کا چڑھانا جائز نہیں ہے(۲) رات کو فاتحہ پڑھنے کے لئے آنے والوں کی سہولت کے پیش نظر روشنی کے لئے چراغ بھی جلایا جا سکتا ہے کسی اور وجہ سے نہیں جو چیز قبر پرچڑھائی گئی ہو اس کا کھانا بھی درست نہیں۔
(۱) (قولہ وقیل تحرم علی النساء إلخ) قال الرملي أما النساء إذا أردن زیارۃ القبور إن کان ذلک لتجدید الحزن والبکاء والندب علی ما جرت بہ عادتہن فلا تجوز لہن الزیارۃ، وعلیہ حمل الحدیث (لعن اللّٰہ زائرات القبور)، وإن کان للاعتبار والترحم والتبرک بزیارۃ قبور الصالحین فلا بأس إذا کن عجائز ویکرہ إذا کن شواب کحضور الجماعۃ في المساجد۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الجنائز: فصل: السلطان أحق بصلاتہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۲)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کنت نہیتکم عن زیارۃ القبور فزوروہا۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل في الذہاب إلی زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴)
عن أبی ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ،: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم لعن زوارات القبور ]ص: ۳۶۳[) وفي الباب عن ابن عباس، وحسان بن ثابت: (ہذا حدیث حسن صحیح) وقد رأی بعض أہل العلم أن ہذا کان قبل أن یرخص النبي صلی اللّٰہ علیہ و سلم في زیارۃ القبور، فلما رخص دخل في رخصتہ الرجال والنساء، وقال بعضہم إنما کرہت زیارۃ القبور للنساء لقلۃ صبرہن وکثرۃ جزعہن۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجنائز: باب ما جاء في کراہیۃ زیارۃ القبور للنساء‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۳، رقم: ۱۰۵۶)
(۲) وشر الأمور محدثاتہا وکل بدعۃ ضلالۃ، وفي روایۃ: وشر الأمور مجدثاتہا، وکل محدثۃ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
تکرہ الستور علی القبور۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فصل في اللبس‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۳)
وقولہم أولی بالاتباع حیث أصبح مثل تلک المسامحات والتعلات مثار اللبدع المنکرۃ والقبر السائرۃ، فتری العامۃ یلقون الزہور علی القبور۔ (معارف السنن، ’’باب التشدید من البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص338