الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں جن چیزوں کا ذکر ہے ان کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے؛ بلکہ یہ سب چیزیں بدعت اور باعث شرک ہیں اس لیے شریعت نے ایسی چیزوں کی قطعاً اجازت نہیں دی ہے۔ مزارات پر عرس ودیگر تقریبات عرس میں شریک ہونا شرعاً جائز نہیں۔(۱)
(۱) ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔ (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)
وقد فصل صاحب الہدایۃ فیہا أن المغني للناس إنما لا یقبل شہادتہ لا یجمعہم علی کبیرۃ والقرطبي علی أن ہذا الغناء وضرب القضیب والرقص حرام بالإجماع عند مالک وأبي حنیفۃ وأحمد رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہم في مواضع من کتابہ إلخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، فتاویٰ بزازیہ علی ہامش الہندیۃ، ’’کتاب ألفاظ تکون إسلاماً أو کفراً أو خطأً: باب في المتفرقات‘‘: ج ۶، ص: ۳۴۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص367