الجواب وباللّٰہ التوفیق:مرد ے کے اوپر گھر میں ڈالنا تو شرعاً درست ہے(۱) لیکن قبر پر یا قبر میں مردے پر ڈالنا اسراف محض ہونے کی وجہ سے شرعاً نا درست اور بدعت ہے۔(۲)
۱) قال ویکفیہ من الطیب ما عمل لہ وہو البیت فنحن متبعون لا مبتدعون فحیث وقفنا سلفنا ووقفنا إلخ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في حملہا ودفنہا‘‘: ص: ۶۰۸)
کذا في تالیفات رشیدیہ مع فتاویٰ رشیدیہ: ص: ۲۴۰)
(۲) وذکر ابن الحاج في المدخل أنہ ینبغي أن یجتنب ما أحدثہ بعضہم من أنہم یأتون بماء الورد فیجعلونہ علی المیت في قبرہ فإن ذلک لم یرد عن السلف رضي اللّٰہ عنہم فہو بدعۃ۔ (أیضاً:)
(۳) لا یسن الأذان عند إدخال المیت في قبرہ کما ہو المعتاد ألأٰن وقد صرح ابن حجر في فتاویہ بأنہ بدعۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج 1 ص368