35 views
عرس میں امام صاحب کی شرکت:
(۶۹)سوال:شہرپربھنی میں ایک درگاہ کا زبردست عرس ہوتا ہے جس میں لاکھوں مرد مسلم، غیر مسلم شریک ہوتے ہیں، تو سامان کی خرید وفروخت اور میلہ دیکھنے کے لئے شرعاً جاسکتے ہیں یا نہیں؟
ایک مسجد کے لوگ بڑی دھوم دھام سے نکلتے ہیں اس میں ڈھول تماشا ناچ وغیرہ سب کچھ ہوتا ہے اس میں بعد نماز ظہر ہزاروں لوگ سلام پڑھتے ہیں اگر بتی عود اکثر جلاتے ہیں اس کام میں امام صاحب برابر شریک رہتے ہیں؛ حالانکہ مولانا عالم ہیں جب مولانا سے کہا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں دل سے برا مانتا ہوں نفرت کرتا ہوں؛ لیکن لوگوں کے اصرار پر مجبوراً شریک ہوجاتا ہوں اگر امامت اس مسجد سے چھوڑدوں تو پھر کوئی دوسرا بدعتی امام مسجد پر قبضہ کرلے گا۔ تو امام صاحب کا یہ کہنا شرعاً درست ہے یا نہیں؟
فقط: والسلام
المستفتی: شیخ حسین صاحب، پربھنی
asked Jun 1, 2023 in اسلامی عقائد by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروّجہ عرس اور مذکورہ سوال کا حکم تو عدم جواز ہی کا ہے اور اس کی اتباع نہیں کرنی چاہئے، منکرات پر عمل کرنا باعث گناہ ہے اور بعض صورتوں میں وہ منکرات میں شمار ہوتا ہے۔(۱) ایسے مجامع کی رونق کے لیے شرکت کر نے کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
امام صاحب اگر دل سے برا جانتے ہیں جیسا کہ سوال میں مذکور ہے اور وہ شرکت کے لیے مجبور ہیں تو ان کے پیچھے پڑھی گئی نماز بلاشبہ ادا ہوگئی امامت کو صورت مسئول عنہا میں ناجائز کہنا درست نہ ہوگا؛ لیکن ان کے لئے یہ بھی ضروری ہوگا کہ اصلاح کی سعی کرتے رہیں مناسب وقت میں لوگوں کو سمجھاتے رہیں اور منکرات پر عمل کرنے کی دنیاء و آخرت میں ہونے والی خرابیوں سے آگاہ کرتے رہیں اور ایسا طریقہ اختیار کرنا جو کہ باعث فتنہ و فساد بن جائے اور نفرت کا اضافہ ہوجائے کہ اصل حکم سے ہی اعراض کرنے لگیں (جیسا کہ ہوتا ہے کہ نمازی آپ کی حق بات کو نہیں مانتے) تو اس طریقہ سے اسلام کا راستہ محدود ہوجاتا ہے اس لئے اس سے احتراز ہی کرنا ہوگا۔ نیز امام صاحب کے عقائد اگر اسلام کے خلاف اور کفریہ ہوں تو ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی ہے اور جن کے اعمال فسقیہ ہوں ان کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے اور عقائد کا تعلق اگرچہ دل سے ہوتا ہے، لیکن ظاہری اعمال سے ہی باطن پر حکم لگایا جاتا ہے۔(۱)
(۱) {وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰیص وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} (سورۃ المائدہ: ۲)
(وفاسق وأعمیٰ) ونحوہ الأعشي، نہر، (إلا أن یکون) أي غیر الفاسق (أعلم القوم) فہو أولی (ومبتدع) أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندۃ بل بنوع شبہۃ، وکل من کان من قبلتنا (لا یکفر بہا) حتی الخوارج الذین یستحلون دمائنا وأموالنا وسب الرسول، وینکرون صفاتہ تعالی وجواز رؤیتہ لکونہ عن تأویل وشبہۃ بدلیل قبول شہادتہم، إلا الخطابیۃ ومنا من کفرہم (وإن) أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ (کفر بہا) کقولہ: إن اللّٰہ تعالیٰ جسم کالأجسام وإنکارہ صحبۃ الصدیق (فلا یصح الاقتداء بہ أصلا۔ قال ابن عابدین: (قولہ وہي اعتقاد إلخ) عزاہ ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ، ولا یخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أو لا، فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸ - ۳۰۰)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص372

answered Jun 1, 2023 by Darul Ifta
...