Ref. No. 2409/44-3646
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (١) حجام کی اجرت کے حلال یا حرام ہونے میں تفصیل یہ ہے کہ جو کام حرام ہیں یعنی داڑھی مونڈنا، ایک مشت سے کم کرنا یا بھنویں بنانا، ان کاموں کی اجرت بھی حرام ہے اور جو کام جائز ہیں جیسے سر کے بال کاٹنا، ان کی اجرت بھی حلال ہے اب اگر حجام اپنی حلال آمدنی سے قربانی میں شریک ہوتا ہے یا اس کی آمدنی مخلوط ہے لیکن حلال آمدنی غالب ہے تو اس صورت میں اس کو شریک کرنا جائز ہے، اگر اس کی آمدنی خالص حرام ہے یا یقینی طور پر معلوم ہے کہ وہ حرام آمدنی سے اجتماعی قربانی میں شریک ہو رہا ہے تو اس کو شریک کرنا جائز نہیں۔
(٢) اگرحرام آمدنی غالب ہے تو اس کی قربانی درست نہیں ہوگی، کیونکہ اللہ تعالیٰ طیب ہیں اور مال طیب ہی سے صدقہ وعبادت قبول کرتے ہیں، اگر اس ے پاس حلال مال نصاب کے بقدر ہو تو حلال مال سے یا پھر قرضہ لیکر قربانی کرے، تو پھر اس کو شریک کرنا درست ہے۔
’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا أیہا الناس ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا‘‘
(٣) جس پر قربانی واجب ہے اس کے لئے قربانی کا جانور ذبح ہونے تک بال وناخن نہ کاٹنا مستحت ہے، فرض یا واجب نہیں اس لئے اگر ایسے شخص نے بال یا ناخن کاٹ لئے تو اس کی قربانی جائز ودرست ہے اس میں کوئی کمی نہیں آئیگی۔
’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من رأی ہلال ذي الحجۃ، فأراد أن یضحی یأخذ من شعرہ ولا من أظفارہ حتی یضحی‘‘ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح: ج ٣، ص: ١٠٨١)
(٤) سونےکا نصاب ٨٧٠٤٨گراماورچاندیکانصاب٦١٢٠٣٦گرام ہے اگر کسی کے پاس تھوڑا سونا اور تھوڑی چاندی ہو جن کی قیمت ٦١٢گرام چاندی کی قیمت کےبرابرہوجائےتو ایسا شخص صاحب نصاب ہوتا ہے اور اس پر زکوٰۃ وقربانی لازم ہوتی ہے اس لئے صورت مذکورہ میں کیونکہ آپ ستر تولہ چاندی کے بقدر مال کے مالک ہیں تو آپ پر قربانی واجب ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند