46 views
سوال: بارش کے موسم میں بائیک میں سفر کے دوران بڑی بڑی گاڑیاں راستوں پر چلتی ہیں اور گاڑیوں کی تیز چلنے کی وجہ سے پانی کا فوارہ جسم پر پڑتا ہے اور پورے راستے میں اس طرح کے مراحل پیش آتے ہی ہیں
البتہ کسی ایک جگہ پانی جمع ہو اور اس کے چھینٹے یا فوارے پڑ جائیں تو انسان اس کے اردگرد دیکھ کر کچھ اندازہ لگا سکتا ہے پانی پاک ہے یا ناپاک ہے
لیکن سفر کے دوران گاڑیوں کے ذریعہ سے پانی کے فوارے پڑ جانا اور اسکا اندازہ لگانابہت ہی پریشانی کی بات ہےیہ پانی کے فوارے کے کا کیا حکم ہوگا
asked Jun 28, 2023 in اسلامی عقائد by mojahidul islam

1 Answer

Ref. No. 2401/44-3627

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر نجاست کا اثر ظاہر نہ ہو توبارش کے موسم میں  راستہ  میں موجود بارش کا پانی  اور کیچڑ عفو کے درجہ میں  ہے، اور گاڑیوں سے اٹھنے والے پانی  کا فوارہ بھی اسی حکم میں ہے، اس میں نماز درست ہے، علماء نے عموم بلوی  کی وجہ سے دفع حرج کے لئے اس کی گنجائش دی ہے۔ 

طین الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورۃ، ولو مختلطاً بالعذرات وتجوز الصلوٰۃ معہ الخ۔ بل الأشبہ المنع بالقدر الفاحش منہ إلا لمن ابتلي بہ بحیث یجيء ویذہب في أیام الأوحال في بلادنا الشامیۃ؛ لعدم انفکاک طرقہا من النجاسۃ غالباً مع عسر الاحتراز بخلاف من لا یمر بہا أصلاً في ہٰذہ الحالۃ فلا یعفی في حقہ، حتی أن ہٰذا لا یصلي في ثوب ذاک۔ (شامی، ۱/۵۳۱)

سئل أبو نصر عن ماء الثلج الذي یجري علی الطریق، وفي الطریق سرقین ونجاسات یتبین فیہ أیتوضأ بہ؟ قال: متی ذہب أثر النجاسۃ ولونہا جاز، وفي الحجۃ: ماء الثلج والمطر یجري في الطریق إذا کان بعیداً من الأرواث یجوز التوضي بہ بلاکراہۃ۔ (فتاویٰ تاتارخانیۃ ۱؍۲۹۸ رقم: ۴۸۱/بحوالہ کتاب النوازل)

وبتغیر أحد أوصافہ من لون أو طعم أو ریح ینجس الکثیر ولو جاریاً إجماعاً۔ أما القلیل فینجس وإن لم یتغیر۔ (درمختار مع الشامي : ۱/۳۳۲)

ولا یضر بقاء أثر کلون وریح فلا یکلف في إزالتہ إلی ماء حارٍ أو صابون ونحوہ۔ (شامي : ۱/۵۳۷)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Jul 9, 2023 by Darul Ifta
...