54 views
فاتحہ، درود، گیارہویں اورمزار پر سجدہ کرنے کی حقیقت:
(۲۴۷)سوال:(۱) فجر کی نماز کے بعد دعاء کرنے میں، الفاتحہ کہہ کر تھوڑی دیر خاموش رہ کر پھر {إِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّط} پڑھ کر خوب بلند آواز سے سب کا درود پڑھنا اور اس کو ضروری سمجھنا، کہاں تک درست ہے؟
(۲) گیارہویں، بارھویں کی کیا حقیقت ہے اور اس کا رواج کب سے ہوا، کیا محبوب سبحانی اور دیگر اولیاء کرام نے اس کی اجازت دی ہے،کیا قرآن وحدیث سے اس کا ثبوت ہے؟
(۳) اولیاء کرام کے مزارات پر جانے کی کیا حقیقت ہے، سجدہ کرنا کیسا ہے؟ خصوصاً سجدے کی تعریف کرتے ہوئے یہ جواب دیا جائے، کہ اولیاء کے احترام میں یہ سب کچھ کیوں ناجائز ہے؛ نیز نماز جنازہ کے بعد فاتحہ ودعا اور چالیس قدم کے بعد فاتحہ دینا کیسا ہے؟
(۴) تیجہ، دسواں، جنازہ کی نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر فجر کی نماز کی طرح اس میں فاتحہ درود کرنا اور مسجد میں نماز جنازہ کو ضروری سمجھنا کیسا ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد سجاد حسین قاسمی، بنگلور
asked Aug 7, 2023 in اسلامی عقائد by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:درود شریف، گیارھویں، بارھویں اولیا کرام کے مزارات پر سجدہ کرنا نماز جنازہ کے بعد فاتحہ دعاء، تیجہ، چالیسواں، دعاء بعد جنازہ مخصوص اوقات میں، مخصوص طریقہ پر زیارت قبور فرقہ رضاخانیت کے مروجہ امور ہیں، شریعت اسلامیہ میںان کا کوئی ثبوت نہیں؛ لہٰذا ان مروجہ طریقوں پر، ان امور کو انجام دینا، بدعت وخلاف شریعت ہے۔ تفصیل کے لئے ’’اصلاح الرسوم‘‘ حضرت تھانوی، ’’فاتحہ کا صحیح طریقہ‘‘، ’’رضاخانیت کا تنقیدی جائزہ‘‘، ’’اعلی حضرت کا دین‘‘، ’’مسئلہ ایصالِ ثواب‘‘ وغیرہ اکابر دیوبند کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ) متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
من تعبد للّٰہ تعالیٰ بشيء من ہذہ العبادات الواقعۃ في غیر أزمانہا، فقد تعبد ببدعۃ حقیقۃ لا إضافیۃ فلاجہۃ لہا إلی المشروع، بل غلبت علیہا جہۃ الإبتداع، فلا ثواب فیہا۔ (أبو اسحاق الشاطبي، الاعتصام، ’’فصل البدع الإضافیۃ ہل یعتد بہا عبادات‘‘: ج ۲، ص: ۲۶)
وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
ویکرہ عند القبر ما لم یعہد من السنۃ والمعہود منہا لیس إلا زیارۃ والدعاء عندہ قائماً، کذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند،الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ:     الباب الحادي والعشرون، في الجنائز، الفصل السادس: في القبر والدفن والنقل من مکان إلیٰ آخر‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۷)
ولا یمسح القبر ولا یقبلہ ولا یمسہ فإن ذلک من عادۃ النصاریٰ، کذا في شرح الشرعۃ۔ (أحمد بن محمد الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۱)
لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرساً۔ (المظہري، التفسیر المظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص538

answered Aug 7, 2023 by Darul Ifta
...