الجواب وباللّٰہ التوفیق:فجر کے علاوہ میں نماز کی اطلاع دینے کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے؛ تاہم متأخرین نے اس کی اجازت دی ہے اور اس کو اچھا سمجھا ہے، لوگوں کی سستی کو دیکھتے ہوئے؛ لہٰذا ضرورت کے وقت اتفاقاً ہو، تو کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔(۱)
(۱) (ویثوّب الخ) ہو لغۃ مطلق العود إلی الإعلام بعد الإعلام وشرعاً ہو العود إلی الإعلام المخصوص، قولہ: (بعد الأذان) علی الأصح لا بعد الإقامۃ کما ہو اختیار علماء الکوفۃ، قولہ: (في جمیع الأوقات) استحسنہ المتأخرون وقد روي أحمد في السنن والبزار وغیرہما بإسناد حسن موقوفاً علي ابن مسعود ما رآہ المسلمون حسناً فہو عند اللّٰہ حسن۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۸)
واستحسن المتأخرون التثویب: التثویب ہو الإعلام بعد الإعلام بحسب ما تعارفہ أہل کل بلدۃ من الأذانین مثل الصلوٰۃ الصلوٰۃ قوموا إلی الصلوٰۃ وغیرہما وقال: إنہ مکروہ في غیر الفجر، فیہ حدیثان ضعیفان أحدہما للترمذي وابن ماجہ۔ (مجمع الأنہر في ملتقی الأبحر، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۶۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص539