آیت نوح کی غلط تفسیر:
(۲)سوال:ایک شخص نے قرآن کریم کی سورہ نوح کی ایک آیت لکھی ہے اور اس کا ترجمہ و تفسیر بھی کردیا ہے وہ قرآن کریم کے مطابق نہیں ہے؛ بلکہ اس میں اس کی ذاتی رائے معلوم ہوتی ہے تو ایسے شخص کے لیے قرآن و حدیث کا کیا حکم ہے؟ قرآن کریم سورہ نوح۔ {وَقَالُوْ لاَتَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمْ وَلاَ تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلاَ سُوَاعاً، وَّلاَ یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْراً} ہمارے باپ دادا ان بزرگ ہستیوں کو خدائی صفات کا حامل تصور کرکے نذر و نیاز کرتے چلے آئے ہیں یہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ’’لاتذرن‘‘، نذر و نیاز سے منع کرتے ہیں جب کہ ان ہستیوں سے ان کی حیات اور بعد وفات بڑی بڑی کرامات صادر ہوئی ہیں جو ہمارے آبائو اجداد نے دیکھی اور سنی ہیں جن کو یہ جھٹلاتے ہیں یہ ہمارے ’’الہکم‘‘ اللہ کے بڑے پیارے اور خدا کے پاس ہمارے درد وفریاد پہنچاتے ہیں۔ اور یہ ہمارے ’’ہٰؤلاء شفعاؤنا عنداللہ‘‘۔ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔ ہم ان کو اللہ نہیں، بلکہ اِلہ مانتے ہیں۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد ابراہیم، مین پور