42 views
آیت نوح کی غلط تفسیر:
(۲)سوال:ایک شخص نے قرآن کریم کی سورہ نوح کی ایک آیت لکھی ہے اور اس کا ترجمہ و تفسیر بھی کردیا ہے وہ قرآن کریم کے مطابق نہیں ہے؛ بلکہ اس میں اس کی ذاتی رائے معلوم ہوتی ہے تو ایسے شخص کے لیے قرآن و حدیث کا کیا حکم ہے؟ قرآن کریم سورہ نوح۔ {وَقَالُوْ لاَتَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمْ وَلاَ تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلاَ سُوَاعاً، وَّلاَ یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْراً} ہمارے باپ دادا ان بزرگ ہستیوں کو خدائی صفات کا حامل تصور کرکے نذر و نیاز کرتے چلے آئے ہیں یہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ’’لاتذرن‘‘، نذر و نیاز سے منع کرتے ہیں جب کہ ان ہستیوں سے ان کی حیات اور بعد وفات بڑی بڑی کرامات صادر ہوئی ہیں جو ہمارے آبائو اجداد نے دیکھی اور سنی ہیں جن کو یہ جھٹلاتے ہیں یہ ہمارے ’’الہکم‘‘ اللہ کے بڑے پیارے اور خدا کے پاس ہمارے درد وفریاد پہنچاتے ہیں۔ اور یہ ہمارے ’’ہٰؤلاء شفعاؤنا عنداللہ‘‘۔ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔ ہم ان کو اللہ نہیں، بلکہ اِلہ مانتے ہیں۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد ابراہیم، مین پور
asked Aug 8, 2023 in قرآن کریم اور تفسیر by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آیت مذکورہ کی تفسیر تو یہ ہے کہ کافروں نے کہا کہ اپنے معبودوں کی حمایت پرجمے رہنا اور نوح کے بہکانے میں نہ آنا ’’لاتذرن‘‘، نہ چھوڑو، ودکو، اور نہ سواع کو اور نہ یغوث کو اور یعوق اور نسر کو ، یہ پانچوں نام ان کے پانچ بتوں کے ہیں۔ ہر مطلب کا ایک الگ الگ بت بنا رکھا تھا بعض روایات میں ہے کہ پہلے زمانہ میں کچھ بزرگ لوگ تھے ان کے انتقال کے بعد شیطان کے اغواء سے ان کی تصویریں بطور یادگار بناکر کھڑی کرلیں پھر ان کی تعظیم ہونے لگی۔شدہ شدہ پرستش کرنے لگے، مذکورہ تفسیر جس کا سوال میں تذکرہ ہے۔ تفسیر بالرائے ہے اور صحیح نہیں ہے اس قسم کی تفسیر لکھنے والا گنہگار ہے اور اس کی لکھی ہوئی تفسیر کے پڑھنے اور دیکھنے سے بھی احتراز ضروری ہے۔(۱)

(۱) وقال نوح: {وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ أٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لاَ سُوَاعًا۵لا وَّ لاَ یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا ہج ۲۳} (سورۃ نوح: ۲۳)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ صارت الأوثان التي کانت في قوم نوح في العرب بعد أما ودُّ کانت لکلب بدومۃ الجندل وأما سواعٌ کانت لہذیل وأما یغوث فکانت لمراد ثم لبني غطیف بالجوف (بالجرف) عند سبإٍ وأما یعوق فکانت لہمدان وأما نسرٌ فکانت لحمیر لآل ذي الکلاع أسماء رجال صالحین من قوم نوح فلما ہلکوا أوحی الشیطان إلی قومہم أن انصبوا إلی مجالسہم التي کانوا یجلسون أنصابا وسموہا بأسمائہم ففعلوا فلم تعبد حتی إذا ہلک أولئک وتنسخ العلم عبدت۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التفسیر: سورۃ إنا أرسلناک، باب وداً ولا سواعاً ولا یغوث‘‘: ج ۲، ص: ۷۳۲، رقم: ۴۹۲۰)
وَقالُوا لا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ أي عبادتہا۔ وَلا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلا سُواعاً وَلا یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْراً وَلا تَذَرُنَّ ہؤلاء خصوصاً، قیل ہي أسماء رجال صالحین کانوا بین آدم ونوح، فلما ماتوا صوروا تبرکاً بہم، فلما طال الزمان عبدوا۔ وقد انتقلت إلی العرب فکان ود لکلب، وسواع لہمدان، ویغوث لمذحج، ویعوق لمراد، ونسر لحمیر۔ (ناصر الدین، أنوار التنزیل: ج ۵، ص: ۲۵۰)
عن ابن جریج، وقال عطائٌ عن ابن عباس: صارت الأوثان التي کانت في قوم نوح في العرب بعد: أما ود فکانت لکلب بدومۃ الجندل، وأما سواع فکانت لہذیل، وأما یغوث فکانت لمراد ثم لبني غطیف بالجرف عند سبأ، وأما یعوق فکانت لہمدان، وأما نسر فکانت لحمیر لاَل ذی کلاع، وہي أسماء رجال صالحین من قوم نوح علیہ السلام۔ فلما ہلکوا أوحي الشیطان إلی قومہم أن انصبوا إلی مجالسہم التي کانوا یجلسون أنصابا وسموہا بأسمائہم ففعلوا فلم تعبد حتی إذا ہلک أولئک وتنسخ (ونسخ) العلم عبدت۔ (أبو الفداء إسماعیل ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ التوبۃ: ۲۳‘‘: ج ۸، ص: ۲۳۴)
من تکلم (في القرآن) أي: في معناہ أو قرائتہ (برأیہ) أي: من تلقاء نفسہ من غیر تتبع أقوال الأئمۃ من أہل اللغۃ والعربیۃ المطابقۃ للقواعد الشرعیۃ، بل بحسب ما یقتضیہ عقلہ، وہو مما یتوقف علی النقل بأنہ لا مجال للعقل فیہ کأسباب النزول والناسخ والمنسوخ وما یتعلق بالقصص والأحکام، أو بحسب ما یقتضیہ ظاہر النقل، وہو مما یتوقف علی العقل کالمتشابہات التی أخذ المجسمۃ بظواہرہا، وأعرضوا عن استحالۃ ذلک في العقول، أو بحسب ما یقتضیہ بعض العلوم الإلہیۃ مع عدم معرفتہ ببقیتہا وبالعلوم الشرعیۃ فیما یحتاج لذلک۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۵، رقم: ۲۳۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص30

answered Aug 8, 2023 by Darul Ifta
...