45 views
وألَنَّا لَہُ الْحَدِیْد} کی تفسیر:
(۳)سوال:مولانا مودودیؒ نے {وألنا لہ الحدید} کی تفسیر میں یہ بات کہی ہے کہ یہ سب کچھ حضرت داؤد علیہ السلام کا ذاتی کارنامہ تھا، تو کیا ایسا کہنا درست ہے؟ کیونکہ ایسی صورت میں معجزہ کا انکار لازم آتا ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: سیداقبال، سیکری، مظفر نگر
asked Aug 8, 2023 in قرآن کریم اور تفسیر by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:{وألنا لہ الحدید}(۱) (اور ہم نے ان کے لیے لوہا نرم کردیا) کی تفسیر میں ائمہ تفسیر حضرت حسن بصری، قتادہ، اعمش وغیرہم نے فرمایا: کہ یہ اللہ نے بطور معجزہ لوہے کو ان کے لیے موم کی طرح نرم بنادیا تھا (۲) دوسری بات: اللہ تعالیٰ کا ان کاموں کو اپنی طرف منسوب کرنا کہ میں نے ایسا کردیا اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا، ایک خرق عادت امر تھا، نبی کے ہاتھ پر خرق عادت امر کا ظاہر ہونا ہی معجزہ کہلاتا ہے۔ تیسری بات: یہاں پر حضرت داؤد علیہ السلام کی خصوصیات کا بیان ہے اگر ان کو معجزہ نہ مانا جائے تو آپ علیہ السلام کے مخصوص فضل وشرف کے بیان میں ان کا شمار کرنا بے معنی ہوجائے گا (العیاذ باللہ)۔ چوتھی بات: ذاتی کارنامے دنیاوی اسباب پر منحصر ہوتے ہیں، جبکہ معجزات کی بنیاد اسباب پر نہیں ہوتی۔(۳)

(۱) {وَلَقَدْ أٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلاً ط یٰجِبَالُ أَوِّبِيْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَج وَأَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَا ہلا ۱۰} (سورۃ سبأ: ۱۰)
(۲) مفتی محمد شفیع عثمانیؒ، معارف القرآن: ج ۷، ص: ۲۶۱۔
(۳) وقیل: ہو مرفوع بالابتداء والخبر محذوف، أي: والطیر تؤب وألنالہ الحدید وجعلناہ في یدہ کالشمع والعجین یصرفہ کما یشاء من غیر نار ولا ضرب مطرقۃ قالہ السیدي وغیرہ۔ وقیل: جعلناہ بالنسبۃ إلی قوتہ التي آتیناہا إیاہ لینا کالسمع بالنسبۃ إلی قوي سائر البشر أن الحمل سابقات إن مصدریۃ وہي علی إسقاط حرف الجرأی ألنا لہ الحدید یعمل سابقات أو أمرناہ بعمل سابقات الخ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ السباء: ج ۱۰‘‘: ج ۱۱، ص: ۲۸۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص32

answered Aug 8, 2023 by Darul Ifta
...