الجواب وباللّٰہ التوفیق:فتح مکہ کے بعد تمام غیر مسلموں کو امان دیدی گئی تھی؛لیکن اس وقت غیر مسلموں کے حالات مختلف تھے، ایک قسم تو وہ لوگ تھے جن سے صلح کا معاہدہ ہوا تھا، مگر انہوں نے خود اس کو توڑ دیا تھا۔ دوسرے کچھ لوگ ایسے تھے جن سے صلح کا معاہدہ کسی خاص میعاد کے لیے ہوا تھا اور وہ معاہدہ پر قائم رہے، جیسے: بنو ضمرہ وبنو مدلج؛ تیسرے کچھ لوگ وہ تھے جن سے معاہدہ کی مدت متعین نہیں تھی۔ چوتھے وہ لوگ تھے جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں تھا۔
چنانچہ جن لوگوں نے صلح حدیبیہ کو توڑا ان کو حکم ہوا کہ اشہر حرم کے ختم ہوتے ہی جزیرۃ العرب سے نکل جائیں یا مسلمان ہو جائیں ورنہ ان سے جنگ ہوگی۔ اور جن سے خاص میعاد کے لیے معاہدہ تھا ان کے معاہدہ کو ان کی مدت تک پورا کرنے کا حکم ہوا۔ اور جن لوگوں سے بلا تعیین مدت معاہدہ تھا یا جن کے ساتھ بالکل کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا ان کو چار ماہ کی مہلت دی گئی۔(۱)
(۱) مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن، سورۃ التوبۃ: ج ۴، ص: ۳۰۹، ۳۱۱؛ وعلامہ آلوسی، روح المعاني، ’’سورۃ التوبۃ‘‘: ج ۶، ص: ۷۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص34