65 views
حضرات مفتیان کرام۔
مذکورہ سوال کا مدلل جواب دے کر شکریہ کا موقع دیا جائے
محمد وکیل نے اپنی بیوی کو کسی بات سے ناراض ہو کر یہ کہا کہ"اگر تو میرے گھر پر رہے گی تو تجھے تین بات "اور اس جملے سے محمد وکیل کی نیت طلاق دینے کی تھی ، تو کیا طلاق واقع ہوئی ۔
براہ مہربانی جلد جواب عنایت فرمائیں ۔
والسلام
asked Aug 8, 2023 in طلاق و تفریق by محمد شارق رحمانی

1 Answer

Ref. No. 2475/45-3763

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کنایہ کے طور پر استعمال شدہ الفاظ سے  اگر طلاق کی نیت کی جائے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ الفاظ  ایسے ہوں جن میں طلاق کے معنی کا احتمال ہو،  لہذا اگر بولنے والے نے  ایسے الفاظ بولے جن میں طلاق اور سب و شتم کا کوئی معنی نہ ہو تو محض نیت کرلینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔  بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں 'تین بات' سے  تین طلاقیں مراد نہیں لی جاسکتی ہیں، اس لئے محض نیت کرنے سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

 والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح رداً ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وشتما ولا يصلح رداً، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا ورداً ولا يصلح سباً وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح. (اللباب في شرح الكتاب 3 / 44، کتاب الطلاق، ط؛ المکتبۃ العلمیہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Aug 16, 2023 by Darul Ifta
...