30 views
غیر عالم کا قرآن پاک کی تفسیر کرنا:
(۷)سوال:ایک شخص جو عالم نہیں ہے وہ قرآن کریم کی تفسیر کر سکتا ہے یا نہیں؟
فقط: والسلام
المستفتی: انور میکانک، پربھنی، مہاراشٹرا
asked Aug 9, 2023 in قرآن کریم اور تفسیر by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن مقدس کی تفسیر بہت اہمیت کی حامل ہے، اس کے ترجمے اور نکات کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو عربی زبان کی قابل قدر تعلیم کا حامل ہو، نیز اس کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر بھی اس کی اچھی نظر ہو، اور اصول شریعت سے واقفیت رکھتا ہو، اصول حدیث، اصول فقہ کے ساتھ ساتھ نحو وصرف اور بلاغت سے بھی آشنا ہو، پس غیر عالم اس کے ترجمے کو بھی نہیں سمجھ سکتا، چہ جائے کہ وہ اس کے مفاہیم کو سمجھ سکے؛ اس لیے غیر عالم کے لیے درست نہیں کہ وہ قرآن مقدس کی تفسیر کرے اور اگر وہ اس کا ترجمہ وغیرہ سناتا ہو یا مکتوبہ ومطبوعہ تفاسیر سناتا ہو، یعنی وہ شخص خود مفسر نہ ہو، بلکہ تفاسیر میں جو لکھا ہے اس کو گاہے گاہے لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہو، جب کہ اردو تفاسیر کو لوگ عموماً پڑھتے ہیں، اور دوسروں کو سناتے ہیں تو اس میں حرج نہیں ہے، البتہ احتیاط ضروری ہے کہ قرآن مقدس کا ترجمہ سامنے رکھ کر وہی باتیں بیان کرے، جو معتمد تفاسیر میں اس نے پڑھی ہوں، اور ان کو ذہن نشین بھی کیا ہو، اپنی طرف سے استنباط یا نکات بیان نہ کرے؛ اس لیے کہ اس صورت کے خلاف کرنے میں خوف ہے کہ کہیں مقصد ورضاء الٰہی کے خلاف نہ ہو جائے، اور اللہ رب العزت پرافتراء وکذب بیانی لازم نہ آجائے، حاصل یہ کہ ان تمام احتیاطوں کے ساتھ لوگوں کے سامنے بیان تو کر سکتاہے، نقل تفسیر تو درست ہے؛ لیکن اپنی سمجھ سے تفسیر یا نکات بیان کرنا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) وقد قال الشافعي رضي اللّٰہ عنہ: کُلُّ ما حکم بہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فہو مما فہمہ من القرآن قال تعالی: {إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللَّہُ} في آیات آخر وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا إني أوتیت القرآن ومثلہ معہ، یعني السنۃ، فإن لم یجدہ في السنۃ رجع إلی أقوال الصحابۃ فإنہم أدري بذلک لما شاہدوہ من القرائن والأحوال عند نزولہ ولما اختصوا بہ من الفہم التام والعلم الصحیح والعمل الصالح۔ وقال الإمام أبو طالب الطبري: إعلم أن من شرطہ صحۃ الاعتقاد أولا ولزوم سنۃ الدین فإن من کان مغموصا علیہ في دینہ لا یؤتمن علی الدنیا فکیف علی الدین ثم لا یؤتمن من الدین علی الإخبار عن عالم فکیف یؤتمن في الإخبار عن أسرار اللّٰہ تعالی ولأنہ لا یؤمن إن کان متہما بالإلحاد أن یبغي الفتنۃ ویغر الناس بلیہ وخداعہ کدأب الباطنیۃ وغلاۃ الرافضۃ۔ (عبد الرحمن بن أبي بکر، جلال الدین الیسوطي، الإتقان في علوم القرآن، ’’النوع الثانی  … …وسبعون، في معرفۃ شروط المفسر وآدابہ‘‘: ج ۴، ص: ۲۰۵)
وعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قال في القرآن برأیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار، وفی روایۃ من قال في القرآن برأیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار، رواہ الترمذي (برأیہ) أي: من تلقاء نفسہ من غیر تتبع أقوال الأئمۃ من أہل اللغۃ والعربیۃ المطابقۃ للقواعد الشرعیۃ، بل بحسب ما یقتضیہ عقلہ، وہو مما یتوقف علی النقل بأنہ لا مجال للعقل فیہ کأسباب النزول والناسخ والمنسوخ وما یتعلق بالقصص والأحکام، أو بحسب ما یقتضیہ ظاہر النقل، وہو مما یتوقف علی العقل کالمتشابہات التي أخذ المجسمۃ بظواہرہا، وأعرضوا عن استحالۃ ذلک في العقول، أو بحسب ما یقتضیہ بعض العلوم الإلہیۃ مع عدم معرفتہ ببقیتہا وبالعلوم الشرعیۃ فیما یحتاج لذلک۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۵، رقم: ۲۳۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص36

answered Aug 9, 2023 by Darul Ifta
...