الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور امت کا اس پر اجماع ہے کہ انبیاء علیہم السلام گناہ سے معصوم ومحفوظ ہوتے ہیں۔(۱) اس کے باوجود قرآن کریم میں لفظ ذنب وعصیان ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور لفظ ذنب کا ترجمہ گناہ وخطاء دونوں صحیح ہیں مگر انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے باوجود بعض اوقات اجتہاد میں ان سے خطاء ہوجاتی ہے اور اجتہادی خطا قانون شریعت میں گناہ نہیں کہلاتی؛ بلکہ اس پر بھی اجر وثواب ملتا ہے۔
مگر انبیاء علیہم السلام کو اس پر متنبہ ضرور کردیا جاتا ہے اور ان کی شان عالی کی مناسبت سے خلاف اولی اور اجتہادی خطا کو بھی ذنب، گناہ و خطا کہا جاتا ہے بطور تہدید اللہ تعالیٰ نے ذنب سے تعبیر فرمایا ہے یہ انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے خلاف نہیں ہے؛ بلکہ ان کے مقام کی رفعت وبلندی پر دلالت ہے؛ اس لیے کوئی شبہ نہ کیا جائے اور اگر پوری طرح سمجھ میں نہ آئے تو یہ جواب کسی مقامی عالم کو دکھلا کر اس سے سمجھ لیں یہ خطاء اجتہادی بھی ایسے احکام میں نہیں ہوتی جو قانون شرع کی حیثیت رکھتے ہوں، معلوم ہوا کہ دوسرا ترجمہ ہی صحیح ہے۔(۱)
(۱) الأنبیاء معصومون قبل النبوۃ وبعدہا عن کبائر الذنوب وصغائرہا۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الکبائر وعلامات النفاق، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳، رقم: ۵۵)
الأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کلہم منزہون عن الصغائر والکبائر والکفر والصبائح۔ (الإمام أبو حنیفۃ، شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الأنبیاء منزہون عن الکبائر‘‘: ص: ۱۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص38