الجواب وباللّٰہ التوفیق:فضائل اعمال ہو یا دیگر کوئی کتاب ہو، ایک ہی کتاب کی تعلیم کو ہمیشہ کے لیے لازم سمجھ لینا درست نہیں ہے۔ حسب ضرورت قرآن کریم کے مذکورہ تراجم وتشریحات کو پڑھ کر سنانا بھی بلا شبہ درست ہے۔ لیکن تفسیری نکات پر بغیر علم کے ناواقف کا کلام کرنا درست نہیں ہے۔ بعض علماء نے تفسیری نکات کو بیان کرنے کے لیے پندرہ علوم میں مہارت کو ضروری قرار دیا ہے۔ اپنی رائے سے تفسیر کے اصول کو نظر انداز کر کے کچھ بھی تفسیر کرنا درست نہیں ہے۔(۱) جس جگہ پر کچھ لوگ فضائل اعمال کے پڑھنے پر اصرار کریں اور کچھ لوگ دوسری کتاب کے پڑھنے پر اصرار کریں تو الحمد للہ اوقات نماز پانچ ہیں، کسی وقت پر نماز کے بعد ایک کی اور دوسرے وقت پر دوسری کتاب کی تعلیم متعین کرلی جائے یا اس کے علاوہ کوئی وقت مقرر کرلیا جائے، اسی کو باعث اختلاف بنا لینا درست نہیں ہے۔
فضائل اعمال میں احادیث بھی ہیں اور دیگر واقعات وتشریحات بھی ہیں، صرف حدیث کی کتاب کہنا اور اس پر اصرار درست نہیں ہے۔
(۱) قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قال في کتاب اللّٰہ عز وجل برأیہ فأصاب فقد أخطأ۔… … (شیخ عبد اللّٰہ کاپودروي، قواعد التفسیر: ص: ۹۸)
اختلف الناس في تفسیر القرآن ہل یجوز لکل أحد الخوض فیہ؟ فقال قوم: لا یجوز لأحد أن یتعاطی تفسیر شيء من القرآن وإن کان عالماً أدیباً متسما في معرفۃ الأدلۃ والفقہ والنحو والأخبار والآثارالخ۔
من قال: یجوز تفسیرھ لمن کان جامعا للعلوم التي یحتاج المفسر إلیہا وہي خمسۃ عشر علماً:
أحدہا: اللغۃ۔ الثاني: النحو۔ الثالث: التصریف۔ الرابع: الاشتقاق۔ الخامس، والسادس، والسابع: المعاني والبیان والبدیع۔ الثامن: علم القرائات۔ التاسع: أصول الدین۔ العاشر: أصول الفقہ۔ الحادي عشر: أسباب النزول والمنسوخ۔ الثالث: عشر: الفقہ۔ الرابع عشر: الأحادیث۔ المبینۃ۔ الخامس عشر: الموہبۃ۔ (عبد الرحمن أبي بکر، الإتقان في علوم القرآن، ’’النوع الثامن والسبعون: في معرفۃ مشروط الآداب‘‘: ج ۴، ص: ۲۱۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص42