Ref. No. 2480/45-3770
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہر شخص کو شرعی طور پر اس کا اختیار ہوتاہے کہ وہ اپنی مملوکہ چیز کوجس قیمت پر چاہے گاہک کے ساتھ باہمی رضامندی سے فروخت کرے، شرعا نفع کی کوئی حد متعین نہیں ہے،تاہم مارکیٹ ریٹ سے زیادہ مہنگے داموں پر فروخت کرنا مناسب نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی میڈیکل اسٹور کسی کمپنی کا ڈیلر ہے یا کسی کمپنی سے کوئی معاہدہ ہے تو پھر وہ کمپنی کی طرف سے مقرر کردہ قیمت پرہی بیچنے کا پابندہے، معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زیادہ قیمت پر بیچنے کی صورت میں گنہگار ہوگا۔ البتہ اضافی نفع کو ناجائز نہیں کہاجائے گا، بشرطیکہ حرمت کی کوئی اور وجہ نہ پائی جائے۔
والثمن ما تراضی علیہ المتعاقدان سواء زاد علی القیمة أو نقص (درمختار مع الشامي: ۷/۱۲۲، ط: زکریا)
وللبائع ان یبیع بضاعتہ بما شاء من ثمن، ولا یجب علیہ ان یبیعھا بسعر السوق دائما. (بحوث فی قضایا فقھیة معاصرۃ: (13/1، ط: دار القلم)
المسلمون علی شروطھم الا شرطا حرم حلالا او احل حراماً (سنن الترمذی: (ابواب الاحکام، 251/1، ط: مکتبة بلال دیوبند)
لا ينبغي مخالفة هذا السعر، إما لأن طاعة الإمام فيما ليس بمعصية واجب، وإما لأن كل من يسكن دولة فإنه يلتزم قولا أو عملا بأنه يتبع قوانينها، و حينئذ يجب عليه اتباع أحكامها، مادامت تلك القوانين لا تجبر على معصیة دينية. (بحوث في قضايا فقهية معاصرة: (ص: 169، ط: دار القلم)
فإن كان أرباب الطعام يتحكمون ويتعدون عن القيمة تعديا فاحشا، وعجز القاضي عن صيانة حقوق المسلمين إلا بالتسعير فحينئذ لا بأس به بمشورة من أهل الرأي والبصيرة، فإذا فعل ذلك وتعدى رجل عن ذلك وباع بأكثر منه أجازه القاضي. (الهداية: (378/4، ط: دار احیاء التراث العربی)
وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۖ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًاo (القرآن الکریم: (الاسراء، الایة: 34)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند