36 views
{بکلمۃ من اللّٰہ} اور {حصوراً} کی تفسیر:
(۱۸)سوال:حضرت مفتی صاحب!
آیت کریمہ {أَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی مُصَدِّقًام بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَسَیِّدًا وَّحَصُوْرًا  وَّنَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَہ۳۹} میں ’’بکلمۃٍ‘‘ اور ’’حصوراً‘‘سے کیا مراد ہے؟ اس کے معنی کیا ہیں؟ براہ کرم  مطلع فرمائیں۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد عبد اللہ، جھانسی
asked Aug 14, 2023 in اسلامی عقائد by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آیت مذکورہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی چند صفات بیان کی ہیں۔
{بِکَلِمَۃٍ مِنَ اللَّہِ}: یعنی حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کرنے والے ہوں گے۔
حضرت مولانا مفتی شفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کلمۃ اللہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ محض اللہ تعالیٰ کے حکم سے خلاف عادت بلا واسطہ والد کے پیدا کئے گئے۔
{حَصُوراً}: اپنے نفس کو لذات سے بہت روکنے والے ہوں گے اور مباح خواہشوں سے بھی بچیں گے مثلاً اچھا کھانا، اچھا پہننا اور نکاح وغیرہ کرنے سے بھی بچیں گے۔(۱)
’’قال البیضاوي: {مُصَدِّقاً بِکَلِمَۃٍ مِنَ اللّٰہِ} أي بعیسی علیہ السلام، سمی بذلک لأنہ وجد بأمرہ تعالی دون أب فشابہ البدعیات التي ہي عالم الأمر۔
وَحَصُوراً: وَحَصُوراً مبالغاً في حبس النفس عن الشہوات والملاہي۔(۲)

تفسیر مظہری میں لکھا ہے:
{بِکَلِمَۃٍ مِنَ اللّٰہِ} یعنی بعیسی علیہ السلام سمی بہ لأن اللّٰہ تعالی، قال: لہ کن من غیراب فکان فوقع علیہ اسم الکلمۃ لأنہ بہا کان -وقیل: سمی عیسیٰ کلمۃ لأنہ یہتدي بہ کما یہتدي بکلام اللّٰہ۔
{وَحَصُوراً}: أصلہ من الحصر وہو الحبس والمنع فقیل کان لا یأتي النساء۔(۳)
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
{بِکَلِمَۃٍ مِنَ اللَّہِ} والمراد بالکلمۃ عیسیٰ علیہ السلام وإنما سمی عیسیٰ علیہ السلام بذلک لأنہ وجد بکلمۃ کن من دون توسط سبب عادي فشابہ البدیعیات التي ہي عالم الأمر۔
{وَحَصُوراً} عطف علی ما قبلہ ومعناہ الذي لا یأتي النساء مع القدرۃ علی ذلک والإشارۃ إلی عدم انتفاعہ علیہ السلام بما عندہ لعدم میلہ للنکاح لما أنہ في شغل شاغل عن ذلک۔(
۴)  مذکورہ عبارتوں کا حاصل یہ ہے کہ {بِکَلِمَۃٍ مِنَ اللَّہِ} سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور {وَحَصُوراً} سے مراد اپنے نفس کو لذات اور خوہشوں سے روکنے والے ہیں، اور یہ دونوں صفتیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بیان کی جا رہی ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کرنے والے اور نفس کو لذات سے بہت روکنے والے ہیں۔
(۱) مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن، ’’سورۃ آل عمران: ۳۹‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۔
(۲) علامہ بیضاويؒ، تفسیر البیضاوي، ’’سورۃ آل عمران: ۳۰‘‘: ج ۳، ص: ۴۶۔
(۳) محمد ثناء اللّٰہ پاني پتيؒ، التفسیر المظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۳۹‘‘: ج ۳، ص: ۴۹۔
(۴) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ آل عمران: ۳۹‘‘: ج ۳، ص: ۲۳۸۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص49

answered Aug 14, 2023 by Darul Ifta
...