86 views
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہے مفتیانِ عظام درجہ زیل مسلہ کے بارے میں۔
اگر کوئی شخص مسلمان ہے
لیکن بعض احکامات کا انکار کرتا ہے
جیسے اس زمانہ میں بعض لوگ رجم
 (جو تقریبا تواتر عملی سے ثابت ہے)
کا انکار کرتے ہے
اور اپنے اس عقائد کی ترویج و اشاعت بھی کرتے ہیں
تو ایسے لوگوں کا کیا حکم ہے
یعنی ایسے لوگوں کی کتابیں پڑھنا ان سے استفادہ کرنا کیسا ہے
درج بالا مسئلے کا تفصیلا جواب عنایت فرمائے
asked Aug 28, 2023 in اسلامی عقائد by M Sufiyan

1 Answer

Ref. No. 2539/45-3881

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وہ حقائق اور اخبار  جن کی حدیثیں متواتر طور پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ، یعنی صحابہ سے لے کر بعد کی نسلوں تک ہر زمانے میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرنے والے اتنے لوگ رہے ہیں کہ ان کا کسی کذب بیانی یا غلط فہمی پر متفق ہونا عقلاً محال اور ناممکن ہے اور یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کی خبر دی ہے اور اپنی امت کو ان کے بارے میں بتلایا ہے۔ ایسی چیزوں کو علماء کی اصطلاح میں ’’ضروریات دین‘‘ کہتے ہیں ۔ یعنی وہ باتیں جن کے بارے میں یقین کے درجے میں یہ بات ثابت ہے کہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے اور ان کی بابت اپنی امت کو تعلیم دی ہے۔

سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرنا جو ضروریاتِ دین ہیں ایمان کہلاتاہےاور کسی ایک ضرورتِ دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں، اگرچہ باقی تمام ضروریات  دین کی تصدیق کرتا ہو۔ اس لئے  ایسا شخص  جو متواتر احادیث کا  بلا تاویل منکر ہو وہ دائرہ ایمان سے خارج ہے، البتہ اگر کوئی تاویل یا توجیہ پیش کرے جس سے کسی حدیث کا انکار لازم آئے تو ایسا شخص گمراہ ہے، جادۂ مستقیم سے ہٹاہوا ہے۔ ایسا شخص دین کے سلسلے میں لائق توجہ نہیں ہے، اس لئے  اپنے عقیدہ کی حفاظت کرنا اور ایسے شخص کی کتابوں اور مضامین  سے  دور رہنا  ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Sep 9, 2023 by Darul Ifta
...