36 views
کیا عہد نبوی اور عہد صحابہؓ میں مساجد رات کو
تلاوت قرآن اور نماز سے آباد رہتی تھیں؟
(۵۱)سوال:کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں: کیا دور نبوت اور دور صحابہ میں رات کے وقت مساجد تلاوت قرآن، نفل نمازوں، فضائل صحابہ کی تعلیم سے اسی طرح آباد ہوتی تھیں، جس طرح آج کل دعوت وتبلیغ کے ساتھی جمع ہو کر دیر رات تک یا کچھ وقت تک تعلیم کرتے ہیں، پھر اس کے بعد نفلی عبادات میں مشغول ہوجاتے ہیں، پھر اگر ان سے اس بارے میں معلوم کرتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم مسجد کو آباد کرنے کی محنت کر رہے ہیں۔ ان کا یہ جواب دینا اور اس طرح جمع ہو کر عبادت کرنا درست ہے یا نہیں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
فقط: والسلام
المستفتی:محمد صاحب، میرٹھ
asked Sep 6, 2023 in حدیث و سنت by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں ہی تمام قسم کے خیر انجام پاتے تھے، بہت سے وہ کام جو آج مسجد میں نہیں ہوتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں انجام دئے جاتے تھے۔ تعلیم وتزکیہ کی مجلس مسجد میںہی ہوتی تھیں، وعظ ونصیحت مسجد میں ہوتے تھے، صحابہ قرآن کی تلاوت مسجد میں کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگی امور کے مشورہ مسجد میں ہی کیا کرتے تھے، دو لوگوں کے درمیان اگر نزاع ہوجائے، تو اس کا تصفیہ مسجد میں ہوتا تھا، ابتداء میں بہت سے صحابہ کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں تھا، تو صحابہ مسجد میں ہی سوتے تھے، غرض کہ آپ کے زمانہ میں ہر امور خیر کو مسجد میں ہی انجام دیا جاتا تھا، رات میں بھی صحابہ سے مسجد میں قرآن پڑھنا اور نفل پڑھنا ثابت ہے؛ اس لیے اگریہ کام تبلیغی حضرات مسجد میں اس طرح انجام دیں کہ کسی دوسرے کو اپنی عبادت میں کوئی خلل نہ ہو، تو یہ درست اور عہد صحابہ کے معمول سے ثابت ہے۔(۱)

(۱) {فِيْ بُیُوْتٍ أَذِنَ اللّٰہُ أَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗلا یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْأٰصَالِہلا ۳۶} (سورۃ النور: ۳۶)
عن أبي ہریرۃ: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الملائکۃ تصلي علی أحدکم مادام في مصلاہ، ما لم یحدث: اللہم اغفرلہ، اللہم أرحمہ، لا یزال أحدکم في صلاۃٍ مادامت الصلاۃ تحبسہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب من جلس في المسجد ینتظر الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۲، رقم: ۶۵۹)
وقد کان صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا سلم من صلاتہ قال بصوتہ إلا علی لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وتقدم وقد کان صلی اللّٰہ علیہ وسلم یأمر من یقرأ القرآن في المسجد أن یسمع قراء تہ وکان ابن عمر یأمر من یقرأ علیہ وعلی أصحابہ وہم یستمعون ولأنہ أکثر عملاً وأبلغ في التدبر ونفعہ متعد لإیقاظ قلوب الغافلین وجمع بین الأحادیث الواردۃ بأن ذلک یختلف بحسب الأشخاص والأحوال فمتی خاف الریاء أو تأذی بہ أحد کان الإسرار أفضل ومتی فقد ما ذکر کان الجہر أفضل قال في الفتاوی لا یمنع من الجہز بالذکر في المساجد۔ (أحمد بن محمد، الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في صفۃ الأذکار‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۸)
عبد اللّٰہ بن عمر، (أنہ کان ینام وہو شاب أعذب لا أہل لہ في مسجد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم) (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب لزم الرجال فی المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۸۰، رقم: ۴۴۰)
ولا بأس للغریب ولصاحب الدار أن ینام في المسجد في الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘ : ج ۵، ص: ۳۲۱)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص87

answered Sep 6, 2023 by Darul Ifta
...