91 views
حدیث میں حیاء سے کیا مراد ہے؟
(۵۳)سوال:حدیث شریف میں اللہ سے حیاء کرنے کو کہا گیا ہے؛ پوچھنا ہے کہ حیاء سے کیا مراد ہے؟ کیا نصوص میں حیاء کی کوئی تشریح موجود ہے؟ امید ہے کہ جواب مدلل دینے کی زحمت گوارہ کریں گے۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد سالم، بجنور
asked Sep 6, 2023 in حدیث و سنت by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیاء کہتے ہیں وقار سنجیدگی اور متانت کو اصطلاح میں: ’’ہو صفۃ وخلق یکون في النفس فیبعث علی اجتناب القبیح ویمنع من التقصیر في حق ذي الحق‘‘(۱)   نفس کا کسی کام کے کرنے میں انقباض اور تنگی محسوس کرنا ملامت اور سزا کے ڈر سے نہ کرنے کو حیاء کہتے ہیں۔
حیاء انسانی زندگی میں ایک ضروری حیثیت رکھتی ہے شرم وحیاء کے ذریعے انسان کو خیر وبھلائی حاصل ہوتی ہے، افعال میں ہو، اخلاق میں ہو یا اقوال میں، جس میں حیاء کا جذبہ نہ رہے اس سے خیر رخصت ہو جاتی ہے۔ امام بخاریؒ نے ایک روایت نقل کی ہے: ’’إذا لم تستحي فاصنع ما شئت‘‘(۲) جب حیاء نہ رہے تو جو چاہے کر۔

اللہ تعالیٰ سے حیاء کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس کو امام ترمذیؒ نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے:
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: استحیوا من اللّٰہ حق الحیاء، قال: قلنا یا رسول اللّٰہ إنا نستحي والحمد للّٰہ، قال: لیس ذاک ولکن الاستحیاء من اللّٰہ حق الحیاء أن تحفظ الرأس وما وعی، والبطن وما حوی ولتذکر الموت والبلی ومن أراد الآخرۃ ترک زینۃ الدنیا فمن فعل ذلک فقد استحییٰ من اللّٰہ حق الحیاء‘‘(۱)
ترجمہ:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! اللہ تعالیٰ سے شرم وحیاء کیا کرو۔ جیسا کہ اس سے شرم وحیاء کرنے کا حق ہے۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم اللہ تعالیٰ سے شرم وحیاء کرتے ہیں اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حیاء کا یہ مطلب نہیں جو تم نے سمجھا ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ سے شرم وحیاء کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو اور موت اور ہڈیوں کے سڑ جانے کو یاد کرو اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زینت کو ترک کردے، تو جس شخص نے اسے پورا کیا حقیقت میں اسی نے اللہ تعالیٰ سے حقیقی حیاء کی۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے، حیاء ایمان کا جزء ہے اور ایمان جنت میں لے جاتا ہے اور بے حیائی بدکاری ہے اور بدکاری دوزخ میں لے جاتی ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الحیاء من الإیمان والإیمان في الجنۃ والبذاء من الجفاء والجفاء في النار‘‘(۲)
حیاء اخلاقیات میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے اس سے خیر وبھلائی حاصل ہوتی ہے، اگر حیاء ہے تو دوسرے خصائل بھی حاصل ہو سکتے ہیں، ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ کا فرمان ہے:ہر  دین کے لئے ایک خُلق ہے اور اسلام کا خُلق حیاء ہے۔
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: إن لکل دین خُلقا وإن خُلق الإسلام الحیاء‘‘(۱)

(۱) ابن حجر، فتح الباري شرح البخاري، باب أمور الإیمان، ج۱، ص:۵۲
(۲)أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأدب: باب إذا لم تسحتي فاصنع ما شئت‘‘: ج ۲، ص: ۹۰۴، رقم: ۶۱۲۰؛ وأخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الأدب: باب في الحیاء‘‘: ج ۲، ص: ۶۶۸، رقم: ۴۷۹۷۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب صفۃ القیامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۸۰، رقم: ۲۴۵۸۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الإیمان، باب ما جاء في الحیاء‘‘: ج ۲، ص: ۲۱، رقم: ۲۰۰۹۔
(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الزہد، باب الحیاء‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۸، رقم: ۴۱۸۱۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص89

 

answered Sep 6, 2023 by Darul Ifta
...