Ref. No. 2557/45-3911
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔
بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شوہر نے جب پہلی بار لکھا 'طلاق' تو اس سے ایک طلاق واقع ہوئی، پھر اس نے لکھا 'اب یہی باقی تھا ۔ ۔ طلاق' تو اگر اس سے تاکید مراد تھی تو اس کی بات قبول کی جائے گی اور اس لفظ سے طلاق واقع نہیں ہوگی، پھر جب عورت نے نہ آنے کی بات کہی تو اس نے کہا'نہیں تو جا طلاق' تو اس سے اب دوسری طلاق واقع ہوگئی۔ لہذا صورت مسئولہ میں دو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، عدت کے اندر شوہر رجعت کرسکتاہے، نکاح کی ضرورت نہیں ہے، البتہ شوہر کو آئندہ صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔ اگر شوہر نے آئندہ ایک طلاق دی تو عورت اس پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند