حدیث میں ’’یدا بید‘‘ کا کیا مطلب ہے؟
(۷۵)سوال:معاملات کے اندر جو حدیث رسول ہے ’’الحنطۃ بالحنطۃ والشعیر بالشعیر الخ‘‘۔ اس کے آخر میں جو لفظ ’’یداً بیدٍ‘‘ کا آیا ہے، کیا اگر کوئی معاملہ ایسا ہو، جس میں ’’یداً بیدٍ‘‘ نہ ہو، مثال کے طور پر ایک ہی جنس ہو، مثلاً: چاول کو چاول سے ادھار قرض کا معاملہ کیا جائے، تو یہ معاملہ ’’یداً بیدٍ‘‘ نہ ہونے کی وجہ سے جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے، تو ’’یداً بیدٍ‘‘ کا مصداق کیا ہے؟ مفصل مطلوب ہے۔
فقط: والسلام
المستفتی: وحید الزماں صاحب