75 views
حدیث میں ’’یدا بید‘‘ کا کیا مطلب ہے؟
(۷۵)سوال:معاملات کے اندر جو حدیث رسول ہے ’’الحنطۃ بالحنطۃ والشعیر بالشعیر الخ‘‘۔ اس کے آخر میں جو لفظ ’’یداً بیدٍ‘‘ کا آیا ہے، کیا اگر کوئی معاملہ ایسا ہو، جس میں ’’یداً بیدٍ‘‘ نہ ہو، مثال کے طور پر ایک ہی جنس ہو، مثلاً: چاول کو چاول سے ادھار قرض کا معاملہ کیا جائے، تو یہ معاملہ ’’یداً بیدٍ‘‘ نہ ہونے کی وجہ سے جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے، تو ’’یداً بیدٍ‘‘ کا مصداق کیا ہے؟ مفصل مطلوب ہے۔
فقط: والسلام
المستفتی: وحید الزماں صاحب
asked Sep 14, 2023 in حدیث و سنت by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’یداً بیدٍ‘‘ کا ورود بیع کے لیے ہے نہ کہ قرض میں؛ لہٰذا قرض پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔(۱)

(۱) حدیث کا تعلق بیع سے ہے، قرض سے نہیں اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک جنس کی بیع اسی جنس سے ہو رہی ہو تو نقد در نقد ہونا چاہیے ادھار جائز نہیں ہے، حدیث میں ’’الحنطۃ بالحنطۃ‘‘ سے پہلے ’’بیعوا‘‘ محذوف ہے۔
’’وأما عدم جواز بیع الحنطۃ بالحنطۃ وزنا معلوما فلعدم العلم بالمساواۃ الذہب بالذہب مثلاً بمثل وقد تقدم وجہ انتصابہ إنہ بالعامل المقدر أي بیعوا وفي البخاري لا تبیعوا الذہب بالذہب إلا مثلا بمثل۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصرف‘‘: ج ۷، ص: ۱۳۴)
قال الحنطۃ بالحنطۃ مثلاً بمثل یدا بید والفضل ربا أي: بیعوا الحنطۃ بالحنطۃ مثلاً بمثل یدا بیدا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’فصل في شرائط الصحۃ في البیوع‘‘: ج ۵، ص: ۱۸۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص115

answered Sep 14, 2023 by Darul Ifta
...