36 views
کیا گھر میں کھیتی کے سامان کا ہونا ذلت کا باعث ہے؟
(۸۷)سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں: بخاری شریف کی حدیث ہے کہ جس گھر میںکھیتی کا سامان ہل وغیرہ ہو، ا س گھر میں ذلت داخل ہو جاتی ہے، کیا یہ حدیث صحیح ہے اور اس کا کیا مطلب ہے، کیا کھیتی کے سامان کا گھر میں رکھنا ذلت کا باعث ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: پرویز قاسمی، مراد آباد
asked Sep 16, 2023 in حدیث و سنت by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جی یہ حدیث بخاری شریف کی ہے اور صحیح روایت ہے؛ البتہ حضرات محدثین نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سب سے اہم مسئلہ جہاد کا تھا، کھیتی میں مشغولی یہ جہاد سے اعراض کا باعث بنتاہے، اور جہاد سے اعراض یہ ذلت کا باعث ہے؛ اس لیے کھیتی کے آلات کے گھر میں ہو نے کو ذلت کا باعث قرار دیا گیا ہے، ورنہ کھیتی ایسی چیز ہے جس پر دنیاکی بنیاد ہے، کھیتی کی چیزیں ہی لوگ کھاتے ہیں؛ اس لیے مطلقاً اس کو ذلت کا باعث نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ہاں بعض اعتبار سے کھیتی میں مشغول لوگ خیر کے کاموں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جیسے وعظ ونصیحت کی مجلس یا صلحاء کی صحبت سے محروم ہوتے ہیں، اس اعتبار سے بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے۔ فیض البار ی میں علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’واعلم أن الحرث والمزارعۃ ملاک العالم، لا یتم نظامہ إلا بہ، ومع ذلک ترد الأحادیث في کراہتہ، فیتحیر منہ الناظر۔ وما ذکرناہ في الحجامۃ لا ینفع ہہنا، فإن الحجام الواحد یکفي لجماعات، بخلاف الحرث۔ وأجیب أن الأہم في عہدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کان الجہاد، والاشتغال بالحرث یوجب الاشتغال عنہ، فذمَّہ(۱) لہذا۔ ثم إن مخالب السلطنۃ تنشب بالمزارع، أکثر مما تنشب بالتاجر۔ وکذا المزارع یحرم من الخیر کثیرًا، فلا یجد فرصۃ لاستماع الوعظ، وصحبۃ الصلحاء۔ والحاصل: أن الشيء إذا دار بین خیر وشر، لا یحکم علیہ بالخیریۃ مطلقا، أو الکراہۃِکذلک۔ ولتجاذب الأطراف، فترد الأحادیثُ فیہ بالنحوین لذلک، فأفہم(۲) ولما ذکر فضل الزرع والغرس في الباب السابق أراد الجمع بینہ وبین حدیث ہذا الباب، لأن بینہما منافاۃ بحسب الظاہر۔ وأشار إلی کیفیۃ الجمع بشیئین أحدہما: ہو قولہ: ما یحذر من عواقب الاشتغال بآلۃ الزرع، وذلک إذا اشتغل بہ فضیع بسببہ ما أمر بہ۔ والْآخر: ہو قولہ: أو مجاوزۃ الحد، وذلک فیما إذا لم یضیع، ولکنہ جاوز الحد فیہ۔ وقال الداوردي: ہذا لمن یقرب من العدو فإنہ إذا اشتغل بالحرث لا یشتغل بالفروسیۃ ویتأسد علیہ العدو، وأما غیرہم فالحرث محمود لہم۔ وقال عزوجل: {وأعدوا لہم ما استطعتم} (الأنفال:۶) ولا یقوم إلا بالزراعۃ۔ ومن ہو بالثغور المتقاربۃ للعدو لا یشتغل بالحرث، فعلی المسلمین أن یمدوہم بما یحتاجون إلیہ۔(۱)
 

(۱) عن أبي أمامۃ الباہلي قال: ورأی سکۃ وشیئاً من آلۃ  الحرث فقال سمعت النبي رسول اللّٰہ علیہ وسلم یقول: لا یدخل ہذا بیت قوم إلا أدخلہ الذل۔ (بدر الدین العیني، عمدۃ القاري، ’’باب ما یحذر من عوقب‘‘: ج ۱۲، ص: ۱۵۶)
ما ذکر من آلۃ الحرث بیت قومٍ إلا أدخلہ أي: اللّٰہ کما في نسخۃ صحیحۃ (الذل) بضم أولہ أي: المذلۃ بأداء الخراج والعشر، والمقصود الترغیب والحث علی الجہاد۔ قال التوربشتي: و إنما جعل آلۃ الحرث مذلۃ للذل لأن أصحابہا یختارون ذلک إما بالجبن في النفس، أو قصور في الہمۃ، ثم إن أکثرہم ملزومون بالحقوق السلطانیۃ في أرض الخراج ولو آثروا الخراج لدرت علیہم الأرزاق واتسعت علیہم المذاہب، وجبی لہم الأموال مکان ما یجبی عنہم۔ قیل: قریب من ہذا المعنی حدیث۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرخ مشکاۃ المصابیح، ’’باب المساقاۃ والمزارعۃ‘‘: ج ۵، ص: ۱۹۸۹، رقم: ۲۹۷۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص126

answered Sep 16, 2023 by Darul Ifta
...