الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ حدیث موضوع نہیں ہے؛ ہاں ایک روای کے نام میں اضطراب کی وجہ سے ضعیف ہے۔ امام ترمذی، امام احمد اور ابن حبان وغیرہ نے اپنی کتابوں میں اس کو نقل کیا ہے، امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کرکے ’’ہذا حدیث غریب لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ‘‘ کا حکم لگایا ہے؛ اس لیے یہ حدیث موضوع نہیں ہے۔ جمعہ کے خطبہ وغیرہ میں اس کا پڑھنا درست ہے۔
’’عن عبد اللّٰہ بن مغفل، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ اللّہ في أصحابي، لا تتخذوہم غرضا من بعدي، فمن أحبہم فبحبي أحبہم، ومن أبغضہم فببغضي أبغضہم، ومن آذاہم فقد أٓذاني، ومن أٓذاني فقد آذی اللّٰہ، ومن آذی اللّٰہ فیوشک أن یأخذہ ہذا حدیث غریب لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ۔(۱) إسنادہ ضعیف۔ عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن، ویقال: عبد الرحمن بن زیاد، ویقال عبد الرحمن بن عبد اللّٰہ، وقال الذہبي: لا یعرف۔ وجاء في ’’التہذیب‘‘ في ترجمۃ عبد الرحمن بن زیاد: قیل إنہ أخو عبید اللّٰہ بن زیاد بن أبیہ، وقیل: عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن۔(۲)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب المناقب، باب في من سب أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵، رقم: ۳۸۶۲۔
(۲) أخرجہ محمد بن حبان بن أحمد، في صحیح ابن حبان، ’’باب ذکر الزجر عن اتخاذ المرء أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم غرضاً بالتنقص‘‘: ج ۸، ص: ۲۴۴، رقم: ۷۲۵۶۔
إسنادہ ضعیف لجہالۃ عبد الرحمن بن زیاد أو عبد الرحمن بن عبد اللّٰہ، أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۳۴، ص: ۱۶۹، رقم: ۲۰۵۴۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص128