الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں ہی کی طرف بھیجا تھا؛ اس لیے کہ مسلمانوں میں بعض لوگ قبروں کو بہت اونچا کردیتے تھے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ قبروں کو ٹھیک کر دو یعنی ایک بالشت اونچا کرنا، جو عموماً قبر کی نکلی ہوئی مٹی سے ہی ہوجاتا ہے، اتنا تو شرعاً جائز بھی ہے اور مطلوب بھی ہے۔ احادیث سے اس کا مطلوب ہونا ثابت ہے؛ لیکن قبر کو اس سے زیادہ اونچا کرنا شرعاً درست نہیں؛ لہٰذا حدیث کے لفظ ’’سویتہ‘‘ سے مراد قبر کو شرعی حدود کے موافق اور ٹھیک کردینا ہے؛ نیز قبر پر قبے وغیرہ بنانا شرعاً جائز نہیںہے۔ احادیث وکتب فقہ میں اس کی ممانعت صراحت کے ساتھ ہے۔(۱)
(۱) عن أبي الہیاج الأسدي قال: قال لي علي ألا أبعثک علی ما بعثني علیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن لا تدع تمثالاً إلا طمستہ، ولا قبرا مشرفاً إلا سویتہ رواہ مسلم۔ قولہ أن لا تدع أي لا تترک (تمثالاً) أي صورۃ (إلا طمستہ) أي محوتہ وأبطلتہ والاستثناء من أعم الأحوال (ولا قبرا مشرفا) ہو الذي بني علیہ حتی ارتفع دون الذي أعلم علیہ بالرمل والحصباء، أو محسوسۃ بالحجارۃ لیعرف ولا یوطأ (إلا سویتہ) في الأزہار قال العلماء: یستحب أن یرفع القبر قدر شبر، ویکرہ فوق ذلک، ویستحب الہدم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، باب دفن المیت‘‘: ج ۴، ص: ۶۸، رقم: ۱۶۹۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص134