35 views
کیا حضرت ایوب علیہ السلام کے بدن میں کیڑے ہو گئے تھے؟
(۹۵)سوال:کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں:
حضرت ایوب علیہ السلام جب بطور آزمائش بیماری کے اندر مبتلا کئے گئے، تو ان کے بدن کے اندر کیڑے ہوگئے اوراگر کوئی کیڑا نیچے گرجاتا، تو اس کو اٹھاکر وہیں رکھ دیتے، کیا یہ روایت صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے، تو براہ کرام حوالہ تحریر فرمادیں، عین نوازش ہوگی؟
فقط: والسلام
المستفتی: توقیر عالم ابن مسقیم عالم ضلع ہریدوار
asked Sep 17, 2023 in حدیث و سنت by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت ایوب علیہ السلام کے جسد مبارک میں کیڑے پڑنے کی روایات معتبر نہیں ہیں، جن روایات وآثار سے کیڑے پڑنے اور جسد اطہر میں پھوڑے، پھنسی وغیرہ کا ثبوت ہوتا ہے، ان کو محققین نے رد کیا ہے؛ کیوں کہ انبیاء علیہم السلام کو بشری بیماری لاحق ہونا، تو ثابت ہے؛ لیکن ایسی بیماری کا لاحق ہونا، جس سے انسانی طبیعت نفرت کرتی ہو نصوص شرعیہ کے خلاف ہے؛ بلکہ صحیح روایات اور آیت قرآنی سے صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوا تھا، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نے معارف القرآن میں لکھا ہے، قرآن میں اتنا تو بتلایا گیا ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوگیا تھا؛ لیکن اس مرض کی نوعیت نہیں بتائی گئی۔ احادیث میں بھی اس کی کوئی تفصیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے؛ البتہ بعض آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے جسم کے ہر حصہ پر پھوڑے نکل گئے تھے، یہاں تک کہ لوگوں نے گھن کی وجہ سے آپ کو کوڑی پر ڈال دیا تھا، لیکن بعض محقق مفسرین نے ان آثار کو درست تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر بیماریاں تو آسکتی ہیں؛ لیکن انہیں ایسی بیماریوں میں مبتلانہیں کیا جاتا، جن سے لوگ گھن کرنے لگیں،(۱) ’’أہل التحقیق أنہ لا یجوز أن یکون بصفۃ یستقذرہ الناس علیہا لأن في ذلک تنفیرا فأما الفقر والمرض وذہاب الأہل فیجوز أن یمتحنہ اللّٰہ تعالی بذلک‘‘۔
’’وفي ہدایۃ المرید للفاني أنہ یجوز علی الأنبیاء علیہم السلام کل عرض بشری لیس محرما ولا مکروہا ولا مباحا مزریا ولا مزمنا ولا مما تعافہ الأنفس ولا مما یؤدي إلی النفرۃ ثم قال بعد ورقتین، واحترزنا بقولنا ولا مزمنا ولا مما تعافہ الأنفس عما کان کذلک کالإقعاد والبرص والجذام والعمي والجنون، وأما الإغماء، فقال النووي: لا شک في جوازہ علیہم لأنہ مرض بخلاف الجنون فإنہ نقص، وقید أبو حامد الإغماء بغیر الطویل وجزم بہ البلقیني، قال السبکی: ولیس کإغماء غیرہم لأنہ إنما یستر حواسہم الظاہرۃ دون قلوبہم لأنہا معصومۃ من النوم الأخف، قال: ویمتنع علیہم الجنون وإن قل لأنہ نقص ویلحق بہ العمي ولم یعم نبي قط، وما ذکر عن شعیب من کونہ کان ضریرا لم یثبت، وأما یعقوب فحصلت لہ غشاوۃ وزالت اہـ‘‘۔
’’وفرق بعضہم في عروض ذلک بین أن یکون بعد التبلیغ وحصول الغرض من النبوۃ فیجوز وبین أن یکون قبل فلا یجوز، ولعلک تختار القول بحفظہم بما تعافہ النفوس ویؤدي إلی الاستقذار والنفرۃ مطلقا وحینئذ فلا بد من القول بأن ما ابتلي بہ أیوب علیہ السلام لم یصل إلی حد الاستقذار والنفرۃ کما یشعر بہ ما روي عن قتادۃ ونقلہ القصاص في کتبہم، وذکر بعضہم أن دائہ کان الجدري ولا أعتقد صحۃ ذلک(۱)۔ واللّٰہ تعالی أعلم‘‘۔

(۱) مفتي محمد شفیع العثمانيؒ، معارف القرآن: ج ۷، ص: ۵۲۲۔
(۱) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ صٓ: ۳۸‘‘: ج ۱۲، ص: ۱۹۷۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص135

answered Sep 17, 2023 by Darul Ifta
...