72 views
حضور سراپا نور تھے کہ نہیں اور آپ کے فضلات پاک تھے کہ نہیں؟
(۸)سوال:کسی مقرر نے اپنے وعظ میں یہ جملے کہے کہ انبیاء علیہم السلام کا بول وبراز پاک ہوتا ہے اور خصوصاً رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات پاک تھے، کیونکہ آپ سراپا نور تھے اس پر استفسار کیا گیا، تو جواب ملا کہ خواہ مخواہ انہوں نے ایسی باتیں بیان کرکے مسلمانوں کو پریشان کیا، وعظ میں اصلاحی چیزیں بیان کرنی چاہئیں، نہ کہ ایسی روایات جن سے دوسری اقوام ہنسیں ایسے واعظوں کا وعظ ہی کیوں سنا جاتا ہے اور ان سے مطالبہ سند کا کیوں نہیں کیا گیا تھا کہ اسی جلسہ میں حقیقت کھل جاتی۔
(۱) کیا انبیاء کرام کے فضلات کا یہی حکم ہے؟ جیسا: کہ اس واعظ کے الفاظ سے پتا چلتا ہے یا صرف خصوصیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے؟
(۲) بصورت ثانی خصوصیت ہونے کے باوجود اس کو خواہ مخواہ کہنا اور ایسے واعظوں کے وعظ سننے سے روکنے والا کیسا ہے اور پھر کیا اس کا ثبوت قرآن وسنت سے کسی درجہ میں ہے یا بالکل نہیں ہے۔ جیسا: کہ مجیب اول نے کہا ہے کہ ان سے مطالبہ سند کا کیوں نہیں کیا گیا۔ امید ہے کہ جواب عنایت فرمائیں گے۔
فقط: والسلام
المستفتی: احسان اللہ، بھاگلپور (بہار)
asked Sep 23, 2023 in حدیث و سنت by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن پاک میں فرمان الٰہی ہے {قل إنما أنا بشر مثلکم یوحی إلي}(۱) کہ اے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم! ان سے کہہ دیجئے کہ میں بھی تمہارے جیسا ایک انسان ہوں (فرق یہ ہے کہ) مجھ پر وحی آتی ہے۔ اس آیت سے نفی ہو رہی ہے اس کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا نور تھے، اگر سراپا نور تھے، تو پھر بول وبراز کے کیا معنی، حالانکہ عادت انسانی کے مطابق آپ کو بھی بول وبراز ہوتا تھا؛ البتہ بول وبراز کی پاکی ناپاکی کے بارے میں علماء متقدمین ومتاخرین نے بحث کی ہے یہ ان کا مقام ہے ہمیں اس پر توقف کرنا چاہیے، یہ مسئلہ مدار ایمان نہیں ہے۔ واعظوں کا مجامع میں اس مسئلہ کو بیان کرنا ہر گز مناسب نہیں ہے؛ اس لئے احتراز ضروری ہے، جس نے ایسا کیا غلطی کی اس کا اعادہ نہ ہونا چاہئے۔(۲)

(۱) سورۃ النساء: ۱۷۔
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: سئلت ما کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعمل في بیتہ قالت: کان بشراً من البشر یفلی ثوبہ ویحلب شاتہ ویخدم نفسہ۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ،  ’’حدیث عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا‘‘: ج ۷، ص: ۳۶۵؛ بحوالہ: کفایت المفتي: ج ۱، ص: ۳۷۶)
صح بعض أئمۃ الشافعیۃ طہارۃ بولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسائر فضلاتہ وبہ قال أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ: کما نقلہ في المواہب اللدنیۃ عن شرح البخاري للعیني وصرح بہ البیري في شرح الأشباہ وقال الحافظ ابن حجر تظافرت الأدلۃ علی ذلک وعد الأئمۃ ذلک من خصائصہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونقل بعضہم عن شرح المشکاۃ للملا علی القاري إنہ قال: اختارہ کثیر من أصحابنا واطال في تحقیقہ في شرحہ علی الشمائل في باب ما جاء في تعطرہ علیہ الصلوۃ والسلام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب في طہارۃ بولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘‘‘ : ج ۱، ص: ۳۱۸)
روي إنہ قال حجمت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وشربت الدم من الحجمۃ وقلت یا رسول اللّٰہ شربتہ، فقال: ویحک یا سالم أما علمت أن الدم حرام لا تعد۔ (أبوالحسن علي بن محمد، أسد الغابۃ: ج ۲، ص: ۱۵۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص200

answered Sep 23, 2023 by Darul Ifta
...