116 views
کیا نبی کریم ﷺ جناتوں کے بھی نبی اور رسول تھے؟
(۲۴)سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں!
قرآن کریم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین کہا گیا ہے تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنات کے بھی نبی اور رسول ہیں؟ یا صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں کی رہنمائی کے لئے مبعوث کئے گئے ہیں؟ اگر آپ جنات کے بھی نبی و رسول ہیں تو وہ کس طرح ایمان لائے؟ ان کے ایمان لانے کا کیا واقعہ ہے؟ براہ کرم مکمل ومدلل جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
فقط والسلام
المستفتی: محمد شمش الہدیٰ، سوپول
asked Sep 24, 2023 in حدیث و سنت by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام بنی نوع انسانی اور جنوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے؛ اس لئے ہر انسان اور جنوں پر واجب ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ کی اتباع کرے۔ فتاویٰ حدیثیہ میں ہے:
’’ولم یبعث إلیہم نبي قبل نبینا قطعا علی ماقالہ ابن حزم: أي وإنما کانوا متطوعین بالایمان لموسی مثلاً والدخول في شریعتہ۔ وقال السبکی: لا شک أنہم مکلفون في الأمم الماضیۃ کہذہ الملۃ إما بسما عہم من الرسول أو من صادق عنہ، کونہ إنسیاً أو جنیا لا قاطع بہ‘‘۔(۲)
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر ثقلین ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں اور جناتوں دونوں کے نبی ہیں جنوں کے ایمان لانے کا واقعہ کتب احادیث وغیرہ میں اس طرح ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنات کو قرآن کریم بالقصد سنایا نہیں؛بلکہ ان کو دیکھا بھی نہیں ہے۔(۱)
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت جب جنات کو آسمانی خبریں سننے سے روک دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت وبعثت کے بعد جو جنات آسمانی خبریں سننے کے لئے اوپر جاتے تھے تو ان پر شہاب ثاقب پھینک کر دفع کر دیا جانے لگا، جنات میں اس کا تذکرہ ہوا کہ اس کا سبب معلوم کرنا چاہئے کہ کونسا نیا واقعہ دنیا میں پیش آیا ہے جس کی وجہ سے جنات کو آسمانی خبروں سے روک دیا گیا ہے، جنات کے مختلف گروہ دنیا کے مختلف خطوں میں اس کی تحقیقات کے لئے پھیل گئے ان کا ایک گروہ حجاز کی طرف بھی پہونچا، اسی روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپس لوٹے تھے اور اپنے اصحاب کے ہمراہ وادئی نخلہ میں نماز پڑھ رہے تھے، اس وقت جنوں کے ایک گروہ نے قرآن کریم سنا اور اپنی قوم کی طرف واپس جاکر انہیں ڈرایا، اس واقعہ کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور سورۃ احقاف کی آیت نازل فرمائی:

{وَإِذْ صَرَفْنَآ إِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَج فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا أَنْصِتُوْاج فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلٰی قَوْمِھِمْ مُّنْذِرِیْنَہ۲۹ قَالُوْا ٰیقَوْمَنَآ إِنَّا سَمِعْنَا کِتٰبًا أُنْزِلَ مِنْم بَعْدِ مُوْسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَھْدِيْٓ إِلَی الْحَقِّ وَإِلٰی طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍہ۳۰ ٰیقَوْمَنَآ أَجِیْبُوْا دَاعِيَ اللّٰہِ وَأٰمِنُوْا بِہٖ یَغْفِرْلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَیُجِرْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ أَلِیْمٍہ۳۱  وَمَنْ لَّا یُجِبْ دَاعِيَ اللّٰہِ فَلَیْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْضِ وَلَیْسَ لَہٗ مِنْ دُوْنِہٖٓ أَوْلِیَآئُط أُولٰٓئِکَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍہ۳۲ }(۲)

اوراے پیغمبر! ان لوگوں سے اس واقعہ کا ذکر بھی کیجئے، جب کہ ہم چند جنوں کو تمہاری طرف لے آئے کہ وہ قرآن سنیں پھر جب وہ اس موقع پر حاضر ہوئے تو ایک دوسرے سے بولے کہ چپ بیٹھے سنتے رہو۔ (پھر چپ بیٹھے سنتے رہے) اور جب قرآن پڑھا جا چکا یعنی نماز میں قرآن پڑھنا ختم ہو چکا، تو وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے (کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں) کہنے لگے اے ہماری قوم! ہم ایک کتاب سن کر آئے ہیں، جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے، دینِ حق بتاتی ہے اور سیدھا راستہ دکھاتی ہے۔ اے ہماری قوم! اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلانے والے کی بات مانو اور اس پر ایمان لاؤ، وہ تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تم کو آخرت کے درد ناک عذاب سے محفوظ رکھے گا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے کی دعوت کو نہ مانے گا وہ زمین کے کسی حصے میں اللہ کو عاجز نہیں کرسکے گا خدا کے سواء اور کوئی حامی بھی نہ ہوگا ایسے لوگ صریح گمراہی میں مبتلا ہیں اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورۃ الجن کی یہ آیات نازل فرمائیں:
{قُلْ أُوْحِيَ إِلَيَّ أَنَّہُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًاہلا ۱   یَّھْدِيْٓ إِلَی الرُّشْدِ فَأٰمَنَّا بِہٖط وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَا أَحَدًاہلا ۲   وَّأَنَّہٗ تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلَا وَلَدًاہلا ۳  وَّأَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ سَفِیْھُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطًاہلا ۴  وَّأَنَّا ظَنَنَّآ أَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْإِنْسُ  وَالْجِنُّ عَلَی اللّٰہِ کَذِبًاہلا ۵ وَّأَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْھُمْ رَھَقًاہلا ۶  }(۱)

اے پیغمبر! آپ لوگوں کو بتا دیجئے کہ میرے پاس (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اس امر کی وحی آئی ہے کہ جنات میں سے ایک جماعت نے قرآن سنا اور اس کے بعد اپنے لوگوں سے جاکر کہا کہ ہم نے ایک عجیب طرح کا قرآن سنا جو نیک راہ بتاتا ہے۔ سو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم تو کسی کو اپنے پروردگار کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہمارے پروردگار کی بڑی اونچی شان ہے کہ اس نے نہ تو کسی کو اپنی بیوی بنایا اور نہ کسی کو اولاد۔ اور ہم میں کچھ احمق ایسے بھی ہیں جو اللہ کی نسبت بڑھ بڑھ کر باتیں بنایا کرتے تھے اور ہمارا پہلے یہ خیال تھا کہ انسان اور جنات کبھی خدا کی شان میں جھوٹ بات نہ کہیں گے۔ اور آدمیوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض لوگوں کی پناہ پکڑا کرتے تھے تو اس سے ان آدمیوں نے جنات کو اور بھی زیادہ مغرور اور بد دماغ کردیا۔
پھر جس وقت جنوں نے قرآن سنا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان پر ایمان لے آئے۔ یہ شہر نصیبین کے جن تھے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے:
’’عن عبد اللّٰہ بن عباس رضي اللّٰہ عنہما، قال: ’’انطلق النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في طائفۃ منْ أصحابہ عامدین إلی سوق عکاظ، وقد حیل بین الشیاطین وبین خبر السماء، وأرسلت علیہم الشہب، فرجعت الشیاطین إلی قومہم، فقالوا: مالکم؟ قالوا: حیل بیننا وبین خبر السماء، وأرسلت علینا الشہب، قالوا: ماحال بینکم وبین خبر السماء إلا شيء حدث، {فاضْرِبُوا مَشَارِقَ الأرضِ ومغَارِبَہا}، فَانْظُرُوا مَا ہٰذا الذي حال بینکم وبین خبر السماء، فانصرف أولئک الذین توجہوا نحو تہامۃ إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہو بنخلۃ عامدین إلی سوق عکاظ، وہو یصلی بأصحابہ صلاۃ الفجر، فلما سمعوا القرآن استمعوا لہ، فقالوا: ہذا واللّٰہ الذي حال بینکم وبین خبر السماء، فہنالک حین رجعوا إلی قومہم، قالوا: یا قومنا: {إِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًاہلا ۱   یَّھْدِيْٓ إِلَی الرُّشْدِ فَأٰمَنَّا بِہٖط وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَا أَحَدًاہلا ۲ } (الجن: ۲) فأنزل اللّٰہ علی نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: {قُلْ أُوْحِيَ إِلَيَّ} (الجن: ۱) وإنَّمَا أُوحِيَ إِلَیْہِ قَوْلُ الجِنِّ‘‘۔(۱)

(۲) أحمد بن محمد بن حجر الہتیمي، الفتاویٰ الحدیثیۃ: ج ۱، ص: ۴۹۔
(۱) مفتی محمد شفیع عثمانیؒ، معارف القرآن: ج ۷، ص: ۵۷۴۔
(۲) سورۃ الأحقاف: ۲۹ تا ۳۲۔

(۱) سورۃ الجن: ۱ تا ۶۔

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب الجہر بقراۃ صلاۃ الصبح‘‘: ج۱، ص ۱۰۶، رقم: ۷۷۳۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص214
 

answered Sep 24, 2023 by Darul Ifta
...