41 views
اللہ کے راستہ میں نکلنے سے عذر پیش کرنا سنت کا مذاق اڑانا ہے:
(۸)سوال:دعوت وتبلیغ کے ساتھی کہتے ہیں کہ جس نے اللہ کے راستہ میں نکلنے سے عذر
 پیش کیا گویا اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا مذاق اڑایا، کیا یہ درست ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد اقتدار، ہردوئی
asked Oct 3, 2023 in بدعات و منکرات by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ اللہ کے راستہ سے کیا مراد ہے؟ تاہم غزوہ خیبر میں ابتداًء حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عذر پیش کیا تھا؛ اس لئے عذر کرنے کو دین کی محنت کے مذاق سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن عبد الرحمن بن أبي لیلی قال: کان أبو لیلی یسمر مع علي فکان یلبس ثیاب الصیف في الشتاء وثیاب الشتاء في الصیف، فقلنا: لو سألتہ، فقال: إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعث إلي وأنا أرمد العین یوم خیبر، قلت یا رسول اللّٰہ إني أرمد العین فتفل في عیني، ثم قال: اللہم إذہب عنہ الحر والبرد، قال: فما وجدت حراً ولا برداً بعد یومئذ وقال: لأبعثن رجلاً یحب اللّٰہ ورسولہ، ویحبہ اللّٰہ ورسولہ لیسً بفرار) فتشرف لہ الناس فبعث إلي علي فأعطاہا إیاہ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’المقدمۃ، باب في فضائل أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فضل علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۱۱۷)
عن زید بن ثابت رضي اللّٰہ عنہ، قال: کنت إلی جنب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فغشیتہ السکینۃ فوقعت فخذ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی فخذی، فما وجدت ثقل شيء أثقل من فخذ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثم سری عنہ، فقال: (اکتب) فکتبت في کتفٍ {لایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ} (سورۃ النساء: ۹۵) {وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} (سورۃ النساء: ۹۵) إلی آخر الآیۃ، فقام ابن أم مکتوم، وکان رجلا أعمی لما سمع فضیلۃ المجاہدین، فقال یا رسول اللّٰہ، فکیف بمن لا یستطیع الجہاد من المؤمنین فلما قضی کلامہ غشیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم السکینۃ فوقعت فخذہ علی فخذی ووجدت من ثقلہا في المرۃ الثانیۃ، کما وجدت في المرۃ الأولی ثم سری عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: (اقرأ یا زید) فقرأت {لایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ} (سورۃ النساء: ۹۵)، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: {غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ} (سورۃ النساء: ۹۵)، الآیۃ کلہا، قال زیدٌ: فأنزلہا اللّٰہ وحدہا، فألحقتہا، والذي نفسي بیدہ کأني أنظر إلی ملحقہا عند صدع في کتف۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الجہاد: باب في الرخصۃ في العقود من العذر‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۹، رقم: ۲۵۰۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص305

answered Oct 3, 2023 by Darul Ifta
...