131 views
(۱۰)سوال:کیا فرماتے ہیں علماء دین وشرع متین اس مسئلہ کے بارے میں:
کہ حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغ کے لئے جو سلسلہ شروع فرمایا تھا اور آج ایک باقاعدہ جماعت کی نگرانی میں اس کا کام پوری دنیا میں ہو رہا ہے، اس جماعت کو تبلیغی جماعت کہنا اور اس کے کام کو کار نبوت کہنا اور جماعت کا بانی حضرت مرحوم کو کہنا شرعاً صحیح ہے یا نہیں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کا جواب مطلوب ہے۔
فقط: والسلام
المستفتی: عبد القدوس مظاہری
مہتمم اشاعت العلوم ڈوئی والا
asked Oct 3, 2023 in بدعات و منکرات by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) تبلیغ کے لغوی معنی ہیں، ’’کسی چیز یا بات کو دوسرے تک پہونچانا‘‘ اور معنی شرعی ہیں، ’’دین کی بات کو دوسروں تک پہونچانا‘‘ یہ لفظ قرآن وحدیث میں اسی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے {ٰٓیأَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط}(۱) ’’اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! دوسروں تک پہونچا دیجئے وہ سب کچھ جو اتارا گیا ہے آپ پر آپ کے رب کی طرف سے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’بلغوا عني ولو آیۃ‘‘(۲) میری بات دوسروں تک پہونچا دو اگرچہ وہ ایک ہی بات (حکم شرعی) ہو۔ مذکورہ آیت کریمہ اور حدیث میں حکم عام ہے جس میں اصل ایمان اور احکام اسلام دونوں کی تبلیغ داخل ہے،حضرت مولانا الیاس صاحب معتبر ومعتمد تھے انہوں نے دین کی بات دوسروں تک پہونچانے کے لئے دعوت کے قرآنی اصول {أُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ} (۱) پر عمل کرتے ہوئے اس دور کے حالات کے پیش نظر چند اصول کی روشنی میں بعض احکام شرعیہ کی تبلیغ کو اہم اور ضروری سمجھا اور اس کے بعد جماعت کے ذمہ دار حضرات علماء اس کی اتباع کرتے ہوئے کام کر رہے ہیں اس لئے قرآن وحدیث کی روشنی میں اس جماعت کو تبلیغی جماعت کہنا بلا شک وشبہ صحیح ہے اور جماعت کی موافقت روز اول سے آج تک مسلک دیوبند کے ترجمان تمام مستند علماء نے کی ہے؛ بلکہ بعض اکابر نے حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس کام کی غیر معمولی تحسین وتعریف بھی کی ہے۔
(۲) سوال اول کے جواب میں جو آیت کریمہ بیان کی گئی ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرض منصبی اور کام تبلیغ کو قرار دیا گیا ہے اور آپ نے اس حکم کی مکمل تعمیل فرمائی حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے مفصل خطبہ دیا جس میں مختلف شعبہائے زندگی سے متعلق ضروری احکام بیان فرمائے اور آخر میں حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا ’’ألا ہل بلغت‘‘ بتاؤ کہ میں نے تبلیغ کردی یا نہیں یعنی جو میرا فرض منصبی اور کام تھا وہ میں نے پورا کر دیا یا نہیں؟ حاضرین نے جب تصدیق کردی ’’قالوا: نعم‘‘ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہم أشہد‘‘ اے اللہ آپ گواہ رہنا آپ کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ کار نبوت ہے جس کو آپ نے بذات خود انجام دیا اور بعد میں آنے والے لوگوں کو یہ ذمہ داری سپرد کرنے کے لئے فرمایا: ’’فلیبلغ الشاہد الغائب‘‘(۲) چونکہ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی قائم کردہ جماعت، تبلیغی جماعت ہے تو جماعت کا وہ کام جو مولانا مرحوم کے طے کردہ اصول کے مطابق ہوگا وہ بلا شک وشبہ کار نبوت کہلائے گا یعنی تبلیغ کا جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے انجام دیا اور اپنے بعد آنے والے لوگوں کے لئے اپنے ارشاد کے ذریعہ اپنے اس سلسلہ کو جاری رکھنے کی ہدایت فرمائی تبلیغی جماعت کا کام بھی اسی سلسلہ سے وابستہ ہے۔
(۳) حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دعوت کے قرآنی اصول کے پیش نظر اس دور کی ضرورت اور حالات کو پیش نظر رکھ کر تبلیغ کے لئے جو چند احکام شرعیہ کا انتخاب فرمایا اور تبلیغ کے لئے چند اصول وضع فرمائے، اور طریقہ کار تجویز فرمایا اس طریقہ وتبلیغ کے وہ بانی ہیں ان کو بانی  کہنے میں کسی قسم کا شرعی یا عقلی اختلاف واشکال نہیں ہے، مسلک دیوبند کے ترجمان تمام مستند علماء  اس جماعت کے کام کے مفید ونافع ہونے کے نہ صرف یہ کہ قائل ہیں بلکہ مدارس دینیہ کے ذمہ دارحضرات مرکز نظام الدین دہلی سے رابطہ کر کے مؤقر شخصیات کو طلبہ میں وعظ ونصیحت کرنے کے لئے مدعو کرتے ہیں؛ چنانچہ دار العلوم وقف بھی ہر سال اس کا اہتمام کرتا ہے جس کے نتیجہ میں دار العلوم وقف کے طلبہ اپنا معتد بہ وقت لگاتے ہیں شہر اور قرب وجوار میں جمعرات وجمعہ کو کام ہوتا ہے اور تعطیل کلاں میں زیادہ وقت لگاتے ہیں بلکہ چند سالوں سے یہ سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے کہ بعض طلبہ فراغت کے بعد پورا سال لگاتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرات علماء صرف قولاً ہی نہیں بلکہ عملاً جماعت کے موافق اور اس کام کو دین کی اہم ضرورت وخدمت اور عامۃ المسلمین کے لئے مفید ونافع سمجھتے ہیں اور مسلک دیوبند کے ترجمان تمام علماء اس پر متفق ہیں اور اگر کوئی شخص اس کے بر خلاف اس جماعت کو تبلیغی جماعت کہنے اور اس کے کام کو کار نبوت کہنے اور حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ کو بانیٔ جماعت کہنے کی مخالفت کرتے ہوئے اس کو غلط کہتا ہے تو ہمارے نزدیک وہ شخص غلط فہمی میں مبتلا ہے اور خطا کار ہے۔
فقط: ’’واللّٰہ أعلم بالصواب وہو یہدي إلی الصراط المستقیم‘‘

(۱) سورۃ المائدہ: ۶۷۔     (۲) عبد الرحمٰن المبارکفوري تحفۃ الأحوذي، ’’کتاب العلم‘‘: ص: ۳۶۰۔(۱) سورۃ النحل: ۱۲۵۔
(۱) مشکوۃ المصابیح، ’’الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵رقم: ۲۶۵۹۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص307
answered Oct 3, 2023 by Darul Ifta
...