الجواب وباللہ التوفیق : حوض کا طول وعرض یکساں ہونا ضروری نہیں ہے، کمی بیشی کی گنجائش ہے، جب کہ حساب دہ در دہ کا عمومی طور پر پورا ہو جائے، مثلث اور مربع ہونے کے اعتبار سے مجموعی مقدار دہ در دہ کے برابر ہو جانی چاہیے اور گہرائی اتنی مقدار میں ہونی چاہیے کہ چلو بھرنے سے زمین نظر نہ آئے(۱) ’’أما إذا کان عشراً في عشر بحوضٍ مربع أو ستۃ وثلاثین في مدور وعمقہ أن یکون بحال لا تنکشف أرضہ بالغرف منہ علی الصحیح(۲)ہذا القدر إذا ربع یکون عشراً في عشر وفي المثلث کل جانب منہ یکون ذرعہ خمسۃ عشر ذراعاً وربعاً وخمسًا‘‘۔ (۳)
(۱)و حقق في البحر أنہ المذہب، و بہ یعمل و أن التقدیر بعشر في عشر لا یرجع إلی أصل یعتمد علیہ و رد ما أجاب بہ صدر الشریعۃ، لکن في النھر: و أنت خبیر بأن المتبادر العشر أضبط ولا سیما في حق من لا رأی لہ من العوام فلذا أفتی بہ المتأخرون الأعلام: أي في الربع بأربعین، و في المدور بستۃ و ثلاثین وفي المثلث من کل جانب خمسۃ عشر و ربعا و خمسا بذراع الکرباس ولو لہ طول لا عرض لکنہ یبلغ عشرا في عشر جاز تیسیرہ ولو أعلاہ عشرا۔ (ابن عابدین رد الحتار علی الدر المختار،کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب:لو أدخل الماء من أعلی الحوض، ج۱، ص:۴۰؍۳۴۳)
(۲) احمد بن محمد بن اسماعیل الطحاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، شرح نورالإیضاح، کتاب الطہارۃ، قبیل فصل في بیان أحکام السؤر، ص:۲۷
(۳) ایضاً:
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص460