الجواب وباللہ التوفیق:وہ پانی طاہر ہے، اس سے کھانا بنانے نہانے کی گنجائش ہے اور مطہر نہیں ہے، اس لیے بہشتی زیور میں کراہت لکھی گئی ہے؛ لہٰذا کوئی بات قابل اعتراض نہیں ہے۔(۱)
(۱) اتفق أصحابنا رحمھم اللّٰہ أن الماء المستعمل لیس بطھور، حتی لا یجوز التوضي بہ، فلا یجوز غسل شيء من النجاسات بہ… واختلفوا في طھارتہ، قال محمد رحمہ اللہ: وھو طاھر غیر طھور، وھو روایۃ عن أبي حنیفہؒو علیہ الفتویٰ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الرابع، في المیاہ التي یجوز الوضوء بہا، ج۱،ص:۳۴۴)؛ و ھو (أي الماء المستعمل) طاھر، ولو من جنب، وھو الظاھر، لکن یکرہ شربہ والعجن بہ تنزیھاً للاستقذار۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في تفسیر القربۃ والثواب، ج۱، ص:۳۵۲)؛ و اتفق أصحابنا رحمھم اللہ: أن الماء المستعمل لیس بطھور حتی لا یجوز التوضؤ بہ، واختلفوا في طھارتہ، قال محمد رحمہ اللّٰہ : ھو طاہر، وھو روایۃ عن أبي حنیفۃؒ و علیہ الفتویٰ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الثانی فیما لایجوز بہ التوضوء، ج ۱،ص:۷۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص469