الجواب وباللہ التوفیق: ایسی صورت میں مسئلہ تویہی ہے کہ کنویں کا کل پانی نکال دیا جائے؛ لیکن اگر کنواں بڑا ہو کہ جس کی وجہ سے تمام پانی کا نکالنا دشوار ہو، تو پھر اس میں سے دو سو سے تین سو کے درمیان ڈول نکال دیئے جائیں،تو کنواں پاک ہو جاتا ہے، تو صورت مسئولہ عنہا میں اگر مذکورہ کنویں کا سوت بھی بڑا ہے اور تین سو ڈول بھی نکال دیے، تو کنواں پاک ہو گیا، شبہ نہ کیا جائے۔(۱)
(۱)و إن تعذّر نزح کلھا لکونھا معینا فبقدر ما فیھا وقت إبتداء النزح، قالہ الحلبي یؤخذ ذلک بقول رجلین عدلین لھما بصارۃ بالماء بہ یفتی، و قیل یفتی بمائۃ إلی ثلاث مائۃ، و ھذا أیسر۔، قولہ (وقیل الخ) جزم بہ في الکنز والملتقی وھو مروي عن محمد، و علیہ الفتویٰ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر، ج ۱، ص:۳۷۰؍۳۷۱)؛ و ثم في کل موضع وجب نزح جمیع الماء، ینزح حتی یغلبھم الماء، وفي الینابیع : ھو الصحیح، وفي الفتاوی العتابیۃ : و عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ إذا نزح مائتان أو ثلاث مائۃ، فقد غلبھم الماء، وھو المختار۔ (الفتاویٰ التاتارخانیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الرابع، في المیاہ التي یجوز الوضوء بھا، ج۱، ص:۳۲۶)، و إذا وجب نزح جمیع الماء، ولم یکن فراغھا لکونھا معیناً، یُنزح مائتا دلو، ھکذا في التبیین، و ھذا أیسر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، النوع الثالث: ماء الآبار، ج۱، ص:۷۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص470