الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر گوبر سے لیپا ہوا فرش ایسا ہو کہ اس پر چلنے سے نجاست کا اثر پاؤں میں نہیں لگتا، تو اس پر چلنے سے پاؤں ناپاک نہیں ہوگا، اگرچہ چلنے کی وجہ سے فرش پر پیروں کے نشان پڑ جائیں اور اگر فرش ایسا گیلا ہو کہ اس پر چلنے سے گوبر کے اثرات پاؤں میں لگ جائیں تو پاؤں ناپاک ہو جائے گا اور اس کو دھونا ضروری ہوگا۔
’’في غنیۃ المستملی: وکذا إن مشی علی أرض نجسۃ بعد ما غسل رجلیہ فابتلت الأرض من بلل رجلیہ واسود وجہ الأرض، أي: بالنسبۃ إلی لونہ الأول؛ لکن لم یظہر أثر البلل المتصل بالأرض في رجلیہ لم تتنجس رجلہ، وجازت صلاتہ بدون إعادۃ غسلہا لعدم ظہور عین النجاسۃ في جمیع ذلک، والطاہر بیقین لایصیر نجساً إلا بیقین مثلہ‘‘(۱)
’’غسل رجلہ ومشی علی أرض نجسۃ أو قام علی فراش نجس فعرق ولم یظہر أثرہ لا یتنجس۔ خانیۃ‘‘(۲)
’’ولو وضع رجلہ المبلولۃ علی أرض نجسۃ أو بساط نجس لا یتنجس وإن وضعہا جافۃ علی بساط نجس رطب إن ابتلت تنجست ولا تعتبر النداوۃ ہو المختار کذا في السراج الوہاج ناقلا عن الفتاوی۔ وإذا جعل السرقین في الطین فطین بہ السقف فیبس فوضع علیہ مندیل مبلول لا یتنجس‘‘(۳)
’’نام أو مشی أي وقدمہ مبتلۃ علی نجاسۃ إن ظہر عینہا المراد بالعین ما یشمل الأثر لأنہ دلیل علی وجودہا تنجس وإلا لا‘‘(۴)
(۱) إبراہیم حلبي، غنیۃ المستملي، ’’ ‘‘: ص: ۱۵۳۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مسائل شتی‘‘: ج ۶، ص: ۷۳۳۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، النوع الثاني المخففۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۲۔
(۴) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستنقاء والاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص51