الجواب وباللّٰہ التوفیق:نجاست حقیقی سے پاک ہونے کو طہارت حقیقی کہتے ہیں اور نجاست حکمی سے پاک ہونے کو طہارت حکمی کہتے ہیں۔
’’عرّف صاحب البحر الطہارۃ شرعاً بأنہا زوال حدث أو خبث وہو تعریف صحیح لصدقہ بالوضوء وغیرہ کالغسل من الجنابۃ أو الحیض أو النفاس بل وبالتیمم أیضاً‘‘(۱)
’’ویختص الخبث بالحقیقي ویختص الحدث بالحکمي‘‘(۲)
’’ثم الخبث یطلق علی الحقیقي والحدث علی الحکمي والنجس یطلق علیہما … والتطہیر إن فسرہا بالإزالۃ فحسن إضافۃ التطہیر إلیہا وإن فسر باثبات الطہارۃ فالمراد طہارۃ محلہا کالبدن والثوب والمکان لأن نجاسۃ ہٰذہ الأشیاء مجاورۃ النجاسۃ فإذا زالت ظہرت الطہارۃ الأصلیۃ‘‘(۳)
(۱) طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’ کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۔…بقیہ حاشیہ آئندہ صفحہ پر…
…(۲) المرجع السابق، ’’باب الأنجاس والطہارۃ عنہا‘‘: ج ، ص: ۱۵۲۔
(۳) بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس وتطہیرہا‘‘: ج ۱، ص: ۶۹۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص60