الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو وغسل اور کپڑوں وغیرہ کو پاک کرنے کے لیے پانی کا پاک ہونا ضروری ہے، بڑے تالاب میں جو رکا ہوا پانی ہوتا ہے وہ فی نفسہ پاک ہے، اس کے اندر زندہ مچھلیاں رہنے سے وہ ناپاک نہیں ہوتا اسی طرح اگر اس میں کچھ مچھلیاں مر جائیں، تو بھی وہ پانی پاک ہی رہتا ہے، اس لئے کہ وہ حیوان جس کا مردار حلال ہے جیسے مچھلی وہ موت وحیات دونوں حالتوں میں پاک ہے، مچھلیوں میں حقیقت میں خون نہیں ہوتا وہ پانی ہی میں پیدا ہوتی اور اسی میں مرتی رہتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ’’ہو الطہور مائہ الحل میتتہ‘‘(۱)
مچھلی پالن کرنے والے لوگ مچھلیوں کو کھلانے کے لیے مرے ہوئے جانور بیل، بھینس یا دیگر گلی سڑی ناپاک چیزیں تالاب میں ڈالتے ہیں، اگر ایسی ناپاک چیزیں تالاب میں ڈالی گئی ہوں، تو پھر دو صورتیں ہیں، اگر تالاب دہ در دہ سے کم ہے، تو نجاست کے گرنے ہی سے ناپاک ہو جائے گا اور اگر بڑا تالاب ہے اور نجاست کی وجہ سے پانی کے اوصاف ثلاثہ رنگ، بو اور ذائقہ میں سے کوئی وصف بدل گیا تو وہ تالاب ناپاک کہلائے گا اور اس سے وضو وغسل اسی طرح کپڑے پاک کرنا درست نہیں ہوگا۔
’’الماء إذا وقعت فیہ نجاسۃ فإن تغیر وصفہ لم یجز الانتفاع بہ بحال‘‘ (۱)
’’إن تغیرت أوصافہ لا ینتفع بہ من کل وجہ کالبول‘‘ (۲)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ: باب ما جاء في ماء البحر أنہ طہور‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۶۹۔(کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مسئلۃ البئر جحط‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني فیما لا یجوز بہ التوضئ، ومما یتصل بذلک مسائل‘‘: ج ۱، ص: ۷۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص70