119 views
نابالغ اور مجنون کے وضو کا پانی مستعمل ہے یا نہیں؟
(۴۵)سوال:حضرات مفتیان کرام: عرض ہے کہ نابالغ یا مجنون کے وضو کرنے سے پانی مستعمل ہوتاہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہوتا تو پانی کے مستعمل نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟ نیز بچہ اگر پانی میں ہاتھ ڈال دے یا پانی میں گر جائے، تو شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد جاوید علی، شریف نگر، مراد آباد
asked Nov 23, 2023 in طہارت / وضو و غسل by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مجنون شریعت کا مکلف نہیں ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’إن القلم رفع عن المجنون حتی یفیق وعن الصبي حتی یدرک وعن النائم حتی یستیقظ‘‘(۱)
پانی کے مستعمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس سے نجاست کو زائل کیا گیا ہو یا ثواب کی نیت سے استعمال کیا گیا ہو، مجنون اگر کسی پانی سے وضو کرے ، تو چونکہ وہ شریعت کی نظر میں ثواب کی نیت کرنے کا اہل نہیں ہے، اس لیے اس کی نیت معتبر نہیں ہوگی اور اس کے وضو کرنے سے پانی مستعمل نہیں ہوگا۔
بچہ اگر سمجھ دار ہے، تو اس کے وضو کا پانی مستعمل شمار ہوگا اور اگر وہ سمجھ دار نہیں ہے اور اس کے بدن یا کپڑے وغیرہ پر کوئی نجاست وغیرہ بھی لگی ہوئی نہیں ہے، تو بچہ کے پانی میں ہاتھ ڈالنے یا پانی  میں گرنے کی وجہ سے وہ پانی ناپاک نہیں ہوگا ایسے پانی کو وضو، غسلِ جنابت اور کپڑے وغیرہ پاک   کرنے کے لئے استعمال کرنا جائز ہے اور اگر بچہ سمجھدار نہیں ہے، تو اس کا حکم بھی مجنون کی طرح ہے یعنی وہ ماء مستعمل شمار نہیں ہوگا۔
’’وإذا أدخل یدہ الصبي في إناء علی قصد إقامۃ (القربۃ)؛ ذکر في ہذہ المسألۃ في شيء من الکتب، وقد وصل إلینا أن ہذہ المسألۃ صارت واقعۃ فاختلف فیہا فتوی الصدر الشہید حسام الدین عمر، وفتوی القاضي الإمام جمال الدین …  قال رحمہما اللّٰہ: والأشبہ أن یصیر مستعملا إذا کان الصبي عاقلا؛ لأنہ من أہل القربۃ، ولہذا صح إسلامہ وصحت عباداتہ حتی أمر بالصلاۃ إذا بلغ سبعا ویضرب علیہا إذا بلغ عشرا‘‘(۱)
’’ولو توضأ الصبي یصیر الماء مستعملًا‘‘(۲)
’’وإذا أدخل الصبي یدہ في الإناء علی قصد القربۃ فالأشبہ أن یکون الماء مستعملًا إذا کان الصبي عاقلًا؛ لأنہ من أہل القربۃ‘‘
(۳)
خلاصہ:
مجنون یا وہ بچہ جو سمجھدار نہ ہو، پاکی اور ناپاکی کو نہ سمجھتا ہو ایسا بچہ یا مجنون اگر پانی میں ہاتھ ڈال دے، اور دوسرا پانی دستیاب ہو، تو بہتر ہے کہ اس نئے پانی کو وضو، غسل اور کپڑے وغیرہ دھونے میں استعمال کرے؛ اس لئے کہ عام طور پر بچہ اور مجنون پاکی اور ناپاکی میں احتیاط نہیں کر پاتے ہیں۔
علامہ حصکفيؒ نے لکھا ہے: پانی کو اگر حدث اصغر یا اکبر کو دور کرنے یا ثواب کے حصول کے لیے یا فرض کو ساقط کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تو وہ پانی بھی ماء مستعمل شمار ہوگا۔
’’(أو) بماء (استعمل لأجل (قربۃ) أي ثواب ولو مع رفع حدث أو من ممیز أو حائض لعادۃ أو عبادۃ أو غسل میت أو ید لأکل أو منہ بنیۃ السنۃ (أو) لأجل (رفع حدث) ولو مع قربۃ کوضوء محدث ولو للتبرد، فلو توضأ متوضئ لتبرد أو تعلیم أو لطین بیدہ لم یصر مستعملًا اتفاقًا کزیادۃ علی الثلاث بلا نیۃ قربۃ وکغسل نحو فخذ أو ثوب طاہر أو دابۃ تؤکل (أو) لأجل (إسقاط فرض) ہو الأصل في الاستعمال کما نبہ‘‘
’’(قولہ: أو من ممیز) أي إذا توضأ یرید بہ التطہیر کما في الخانیۃ وہو معلوم من سیاق الکلام، وظاہرہ أنہ لو لم یرد بہ ذلک لم یصر مستعملًا، تأمل‘‘ (۱)

(۱) برہان الدین محمود بن أحمد، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الرابع في المیاہ التي یجوز، ومما یتصل بہذا الفصل، بیان حکم الأسار‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳۔(دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)
(۲) عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق وحاشیۃ الشلبي، ’’کتاب الطہارۃ: الماء المستعمل‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۔(زکریا بک ڈپو دیوبند)
(۳) بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: المقصود بالماء المستعمل وأقسامہ‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۳۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مبحث الماء المستعمل‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۸ - ۳۴۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص78

answered Nov 23, 2023 by Darul Ifta
...