الجواب وبا للّٰہ التوفیق: اگر کوئی غیر حافظ پابند شرع ایسا ہو جو نماز پڑھا سکے تو وہ نماز کے لیے مقدم ہے اور اگر کوئی ایسا نہ ہو کہ نماز بھی صحیح پڑھا سکے کہ اس کو چند سورتیں بھی یاد نہ ہوں تو بغیر جماعت نماز پڑھنے کے بجائے اسی غیر حافظ کو امام بنالیا جائے۔(۱)
’’والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ وحفظہ فرض وقیل واجب وقیل سنۃ … قولہ قدر فرض … قدر ما تجوز بہ الصلاۃ‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴۔
(۲) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء، الإسلام، والبلوغ والعقل والذکـورۃ والقراء ۃ، بحفظ آیۃ تصح بہا الصلوۃ علی الخلاف، قولہ بحفظ آیۃ، ولو قصیرۃ والأولی أن یقول بحفظ ما تصح بہ الصلوۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۲۸۸، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص82