الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام صاحب کو چاہئے کہ قعدہ اولیٰ میںتشہد کے بعد فوراً کھڑے ہوجائیں؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد پڑھتے ہی تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو جایا کرتے تھے، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اہل علم کے ہاں اسی پر عمل ہے، چناں چہ وہ پہلی دو رکعت کا قعدہ طویل کرنے کو پسند نہیں کرتے، اور نمازی کو چاہیے کہ پہلی دو رکعت کے تشہد پر کچھ بھی اضافہ نہ کرے، علماء فرماتے ہیں: اگر تشہد پر کچھ اضافہ کیا تو سجدۂ سہو لازم ہوگا، امام شعبی رحمہ اللہ اور دیگر اہلِ علم سے اسی طرح منقول ہے۔
امام صاحب کو چاہئے کہ قعدہ اولیٰ کو زیادہ طول نہ دیں اور مقتدیوں کی رعایت کریں البتہ اگر امام صاحب التحیات کو قدرے سکون سے پڑھتے ہیں تاکہ ہر قسم کے نمازی کی رعایت رکھی جائے تو یہ امر مستحسن ہے، اس پر امام صاحب کو تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں ہے۔
’’سمعت أبا عبیدۃ بن عبد اللّٰہ بن مسعود یحدث عن أبیہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم إذا جلس في الرکعتین الأولیین کأنہ علی الرضف قال شعبۃ ثم حرک سعد شفتیہ بشيء فأقول حتی یقوم؟ فیقول حتی یقوم، والعمل علی ہذا عند أہل العمل یختارون أن لا یطیل الرجل القعود في الرکعتین الأولیین ولا یزید علی التشہد شیئا۔ وقالوا إن زاد علی التشہد فعلیہ سجدتا السہو، ہکذا روي عن الشعبي وغیرہ‘‘(۱)
(۱) أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ الرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب: مقدار القعود في الرکعتین الأولین‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم: ۳۶۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص85