100 views
سہوًا حالتِ جنابت میں امامت کرنے کا حکم:
(۵۹)سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان عظام: میں ایک مسجد میں تقریباً دس سال سے امامت کے فرائض انجام دے رہا ہوں گزشتہ ہفتہ میں بھولے سے حالتِ جنابت میں لوگوں کو نماز پڑھا دی گھر جانے کے بعد یاد آیا کہ میں نے جنابت کی حالت میں نماز پڑھا دی ہے سوال یہ ہے کہ اب میرے لیے شریعت مطہرہ میں کیا حکم ہے؟ نماز کے سلسلے میں اس صورت میں مقتدیوں کو کیا کہا جائے؟ براہ کرم شرعی رہنمائی فرما کر ذہنی خلجان کو دور فرمائیں۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد امام الدین، پونہ، مہاراشٹر
asked Dec 13, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق: ذکر کردہ سوال میں آپ نے سہواً جنابت کی حالت میں نماز پڑھائی ہے جنابت کی حالت میں نماز پڑھانا اور پڑھنا دونوں ناجائز اور سخت گناہ کا کام ہے  البتہ آپ نے لکھا ہے کہ آپ نے لا علمی میں حالتِ جنابت میں نماز پڑھائی ہے؛ اس لیے اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے تاہم اس پر توبہ اور استغفار کریں، امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے خطا اور نسیان کی وجہ سے ان شاء اللہ مواخذہ نہیں ہوگا۔
’’وعن ابن عباس أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن اللّٰہ قد تجاوز عن أمتي الخطأ والنسیان وما استکرہوا علیہ‘‘(۱)
نیز حالت جنابت میں پڑھائی گئی نماز دوبارہ ادا کریں امام اور مقتدیوں کے لیے نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے آپ کسی نماز میں اعلان کردیں کہ فلاں دن کی فلاں نماز میں جو حضرات شریک ہوئے تھے وہ اپنی نماز کا اعادہ کر لیں کسی وجہ سے وہ نماز نہیں ہوئی ان شاء اللہ اس کے بعد آپ بری الذمہ ہیں؛ لیکن آئندہ آپ اپنے منصب اور پاکی اور ناپاکی کا خاص خیال رکھیں آپ کی وجہ سے عوام ذہنی تناؤ اور کوئی خلجان میں مبتلا نہ ہوں۔
’’وفي کفر من صلی بغیر طہارۃ … مع العمد خلف في الروایات یسطر۔ (قولہ: کما في الخانیۃ) حیث قال بعد ذکرہ الخلاف في مسألۃ الصلاۃ بلا طہارۃ وأن الإکفار روایۃ النوادر۔ وفي ظاہر الروایۃ لا یکون کفرا، وإنما اختلفوا إذا صلی لا علی وجہ الاستخفاف بالدین، فإن کان علی وجہ الاستخفاف ینبغي أن یکون کفرا عند الکل‘‘
’’(وإذا ظہر حدث إمامہ) وکذا کل مفسد في رأی مقتد (بطلت فیلزم إعادتہا)؛ لتضمنہا صلاۃ المؤتم صحۃً وفساداً (کما یلزم الإمام إخبار القوم إذا أمہم وہو محدث أو جنب) أو فاقد شرط أو رکن۔ وہل علیہم إعادتہا إن عدلاً، نعم، وإلا ندبت، وقیل: لا لفسقہ باعترافہ؛ ولو زعم أنہ کافر لم یقبل منہ؛ لأن الصلاۃ دلیل الإسلام وأجبر علیہ (بالقدر الممکن) بلسانہ أو (بکتاب أو رسول علی الأصح) لو معینین وإلا لایلزمہ، بحر عن المعراج۔ وصحح في مجمع الفتاوی عدمہ مطلقاً؛ لکونہ عن خطأ معفو عنہ، لکن الشروح مرجحۃ علی الفتاوی‘‘(۲)
’’قلت: وبہ ظہر أن تعمد الصلاۃ بلا طہر غیر مکفر کصلاتہ لغیر القبلۃ أو مع ثوب نجس، وہو ظاہر المذہب کما في الخانیۃ، وفي سیر الوہبانیۃ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ ابن ماجہ في سننہ، ’’کتاب الطلاق، باب طلاق الکرہ والناس‘‘: ص:۱۴۵، رقم: ۲۰۴۳۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۷۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص88


 

answered Dec 13, 2023 by Darul Ifta
...